Spiritual Healing
سوال :
ہمارے بزرگ روز مرہ کی گفتگو میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آدمی کے اندر
توکل اور استغناء ہوناچاہے، مسلمان قوم میں سے جب سے استغناء ختم ہوگیا ہے ساری
قوم مادیت پرست ہوگئی ہے اور مادی زندگی کی تیز رفتاری نے آدمی کو توڑ کر رکھ
دیاہے، ہوس زر ایک ایسی بیماری ہے جو قوم
کے لیے کینسر سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ آپ ہم نوجوان نسل کو یہ بتائیں کہ جب آدمی
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے گا اور توکل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے گا تو ہم
ترقی یا فتہ دنیا میں کس طرح اپنا مقام بنائیں گے۔ توکل کی تعریف یہ بھی تو ہوسکتی ہے کہ ہمارا
بھائی امریکہ میں بیمار ہے ہم اس کی خیریت نہ معلوم کریں اس کی کوئی مدد نہ کریں
بس اللہ پر چھوڑ دیں کہ وہ خود ہی ٹھیک کردے گا، جبکہ ہمارا مذہب ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے
اور مدد کا ذریعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ٹیلفون ہو،
ٹیلکس ہو، امریکہ جانے کے لیے دولت کی ضرورت ہو تی کہ ہم جلد ازجلد اپنے
بھائی کے پاس پہنچ کر اسکی دیکھ بھال کرسکیں۔ اگر ہم زمین پر پھیلے ہوئے وسائل کو
استعمال نہیں کریں گے تو ہمارا بھائی ہماری مدد سے محروم رہ جائے گا، ہوسکتا ہے بھائی کی شکل دیکھنے کی آرزو دل میں
ہی رہ جائے اور وہ انتقال کرجائے ، جن لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہیں ان کے ساتھ یہی
ہوتا ہے۔
جواب : عظیم
روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاء ؒ
فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ خود کھاتے ہیں نہ سوتے ہیں اور نہ ہی انہیں
مکان کی ضرورت ہے۔ دنیا پر پھیلے ہوئے
سارے وسائل بندوں کے لیے ہیں اور اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ نوع انسانی وسائل سے
بھرپور فائدہ اٹھائے انہیں خوب جی بھر کے اور خوش ہوکر استعمال کریں اگر وسائل کو
استعمال نہ کیا گیا تو زمین پر سے ان کا وجود مٹ جائے گا اور اللہ کی نعمت کا
کفران ہوگا ۔ مذہبی نقطہ نظر سے قرآن پاک
میں توکل اور استغنا کی تعریف یہ ہے کہ اللہ ایک ہے، اللہ ہر قسم کی احتیاج سے بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی اسکا کوئی بیٹا
ہے اس کا کوئی خاندان بھی نہیں ہے، جب ہم
خالق اور مخلوق کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے مخلوق اور خالق کی تعریفی حدیں
اس طرح قائم ہوتی ہے کہ اللہ ایک ہے ،
واحد ہے، یکتا ہے، بے مثال ہے ، لیکن مخلوق ایک نہیں ہے کثرت سے ہیں، مخلوق
کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کی اولاد ہوتی ہے یا اس کا کوئی باپ ہوتا ہے، مخلوق کے
لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا خاندان ہوتا ہے۔ مخلوق احتیاج اور ضرورت کے دائرے
میں قید ہے۔ کوئی مخلوق بھی احتیاج اور ضرورت کے دائرے سے باہر قدم نہیں نکال
سکتی، اس کی زندگی کا ایک ہر قدم ، ہرہر جذبہ احتیاج اور ضرورت میں قید ہے۔ ان
پانچ باتوں میں مخلوق خالق سے براہ راست اگر رابطہ رکھ سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ
اپنی تمام ضرورتوں کا کفیل اللہ کو سمجھے۔
جب
ہم شعوری زندگی کا تجربہ کرتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ زندگی سے متعلق ہر چھوٹی بڑی
خواہش یا ضرورت کے لیے ہم اِس طرح پابند اور بندھے ہوئے ہیں کہ ہمیں اِ س سے
چھٹکارا نہیں ملتا یہی وجہ ہے کہ ہم خالی الذہن نہیں ہوتے، کبھی ہمارا ذہن اِس بات
میں لگا رہتا ہے کہ ہمیں معاش حاصل کرنا ہے ، کبھی ہمارا اِ س بات میں مصروف رہتا ہے کہ ہمیں مکان بنانا
ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن جب کوئی شخص شعور کے
دائرے سے نکل کر تفکر کرتا ہے تو یہ بات اِ س کا یقین بن جاتی ہے کہ فی الوقع ہر
ضرورت کا کفیل اللہ ہے، اِس کی ایک نہیں
ہزار مثالیں ہیں، نو ماہ ماں کے پیٹ کی
زندگی، پیدائش کے بعد لڑکپن اور بچپن کی
زندگی ہمارے سامنے ہے ، جب ہم اربوں
کھربوں دانہ چگنے والے پرندوں کی طرف آنکھ اٹھاتے ہیں تو وہاں یہ بات سورج کی طرح
روشن نظر آتی ہے کہ کفالت کا نظام دروبست اللہ کے ہاتھ میں ہے، کسان جب کھیتی
کاٹتا ہے تو جھاڑو سے ایک ایک دانہ جمع کرلیتا ہے ، انتہا یہ ہے کہ جو دانہ کرم خوردہ اور خراب
ہوجاتے ہیں وہ بھی محفوظ کرکے کھیتی کے کام کرنے والے جانوروں کو کھلادیتا ہے۔
سوال یہ پید اہوتا ہے کہ کسان نے ایک ایک دانہ زمین پر سے سمیٹ لیا تو یہ اربوں
کھربوں سنکھوں پرندے کہاں سے دانہ کھاتے ہیں،
ان کے لیے تو کوئی کاشت ہوتی نہیں ہے اس طرف توجہ کرنے سے بھی یہ بات یقین
بنتی ہے کہ کفالت کا نظام دروبست اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
یعنی
اللہ کے ساتھ بحیثیت خالق کے رابطہ کرنے لیے ضروری ہے کہ ہمارے اندر یہ طرز فکر
راسخ ہو جائے کہ جس طرح اللہ ہمیں پیدا کرتا ہے اسی طرح اللہ ہماری زندگی کی کفالت
بھی کرتا ہے اوریہ سارے وسائل بھی اللہ کی زمین سے حاصل ہوتے ہیں، توکل اور
استغناء یہ ہے کہ آدمی روٹین میں وسائل
کو حاصل کرنے کی کوشش کرے اور زمین پر پھیلے ہوئے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھائے
لیکن وسائل کو مقصد نہ بنائے۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف نفع اور دولت کے حصو ل کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ
توکل اور استغناء کے منافی ہے ، ایک بیٹا
اپنے باپ سے اس لیے محبت نہیں کرتا کہ باپ اسے پیسے دیتا ہے، بیٹا باپ سے اِس لیے محبت کرتا ہے کہ وہ اس کا
باپ ہے۔ یہی صورت حال مخلوق کے ساتھ خالق
کی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔