Topics
دنیا میں جتنے بھی لوگ آباد ہیں وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ لوگ جو علوم سیکھ لیتے ہیں ہمیشہ ان لوگوں کے مقابلے میں جو علم نہیں جانتے معزز رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے معاملات پر جب غور و فکر کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر علیہم السلام دنیا میں بھیجے ہیں۔ ہر پیغمبر علیہم السلام نے بتایا ہے کہ انسان اور حیوان کو ممتاز کرنے کے لئے جو قاعدے ہیں ان کے مطابق انسان دوسرے تمام حیوانات سے اس لئے افضل ہے کہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء سیکھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔
جہاں تک عقل و شعور کا تعلق ہے تو عقل و شعور کائنات میں ہر مخلوق کو، ہر نوع میں، ہر فرد کو تقسیم ہوا ہے۔ کوئی بھی آدمی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ عقل و شعور صرف آدمی کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ اس لئے کہ یہ بات مشاہدہ میں ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی چیونٹی اور بڑے سے بڑا ہاتھی بھی عقل و شعور رکھتا ہے۔
چیونٹی کے بارے میں آپ لوگوں نے سنا ہو گا اور قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے چیونٹی کے بارے میں بیان فرمایا! اور قرآن پاک میں ایک سورۃ کا نام ’’سورۃ النمل‘‘ (چیونٹی) ہے اور ایک سورۃ کا نام ’’سورۃ الفیل‘‘ (ہاتھی) ہے۔
چیونٹی برسات آنے سے پہلے پہلے اپنے لئے اجناس کا ذخیرہ جمع کر لیتی ہے۔ جن لوگوں نے اس سلسلے میں ریسرچ کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چیونٹی جب زمین کے اندر ذخیرہ جمع کر لیتی ہے تو ذخیرہ کے لئے الگ الگ اسٹور بناتی ہے مثلاً چینی کی جگہ چینی رکھتی ہے۔ چاول کی جگہ چاول رکھتی ہے اور دیوار کے اندر کھود کر اس طرح اسٹور بناتی ہے کہ زمین کے اندر اگر پانی داخل ہو جائے تو اسٹور کی چیزیں خراب نہیں ہوں۔ ظاہر ہے کہ چیونٹی کے اندر عقل نہ ہو تو یہ اتنا بڑا پروگرام اس کی زندگی سے متعلق نہیں چل سکتا۔
ہاتھی کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا کہ وہ بہت ذہین ہوتا ہے۔ گھوڑے کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا کہ بہت ہی عقل مند اور اپنے مالک کا انتہائی وفادار ہوتا ہے۔
چڑیوں کا بھی یہی عمل ہے کہ جب ان کے بچے ہوتے ہیں تو وہ ان بچوں کو دانہ بھی دیتی ہیں ان کو اڑنا بھی سکھاتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس میں عقل نہیں ہے۔ کھانے کی عقل، سونے کی عقل، سردی گرمی سے محفوظ رہنے کی عقل، بچوں سے پیار کرنے کی عقل، بچوں کو تربیت دینے کی عقل ہر مخلوق میں موجود ہے۔ بلی کو آپ دیکھیں بلی اپنے بچوں کو کس طرح پالتی ہے اور اس کو شکار کرنا سکھاتی ہے۔
ایک مرغی ماں کے رنگین روئی کے گالوں کی طرح بیس بیس بچے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جب مرغی کو اس بات کا خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ چیل اس کے بچے کو اٹھا لے جائے گی۔ تو وہ ایک مخصوص آواز نکالتی ہے۔ سارے بچے جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے پروں میں چھپ جاتے ہیں۔
مرغی پروں کو پھیلا کر بچوں کو اپنی گود میں سمیٹ لیتی ہے اور بچے چیل سے بچ جاتے ہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ مرغی کی عقل ہے کہ اس نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے اپنے پروں میں چھپا لیا۔
دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ مرغی کے بچوں میں بھی عقل ہے۔ اگر بچوں میں عقل نہ ہوتی تو مرغی کی مخصوص آواز سن کر ماں کے پروں میں کس طرح چھپتے؟
زمین کے اوپر رہنے والی مخلوق کے بارے میں آپ جتنا بھی غور کرینگے۔ وہ چیونٹی ہو، بکری ہو، شیر ہو، کوئی اور جانور ہو آپ کو ان میں عقل نظر آئے گی۔ اس بات سے آپ کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ شیر پتے نہیں کھاتا، وہ عقل و شعور کے اعتبار سے یہ بات جانتا ہے کہ شیر کی غذا گوشت ہے۔
اس بات سے کون آدمی انکارکر سکتا ہے کہ کبھی کسی نے بکری کو گوشت کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس لئے کہ بکری کا شعور اسے بتاتا ہے کہ بکری صرف گھاس ساگ اور پتے کھاتی ہے۔ گوشت اس کے کھانے کی چیز نہیں۔
غرض جب ہم زمین پر موجود حیوانات کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ہر جاندار چیز میں عقل کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
موازنہ
جب ہم انسان کا اور زمین کے اوپر موجود دوسری مخلوقات کا موازنہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی زندگی کے معاملات پر غور کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جس طرح انسان میں عقل ہے اسی طرح دوسری مخلوق میں بھی عقل ہے۔
اگر عقل و شعور کی بنیاد پر انسان اور حیوانات کا تذکرہ کیا جائے تو ہم کسی بھی طرح انسان کو محض عقل و شعور کی بنیاد پر حیوانات سے ممتاز قرار نہیں دے سکتے۔
کہا جاتا ہے کہ جانوروں میں عقل کم ہوتی ہے اور انسانوں میں عقل زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی برادری میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو عقل و شعور کے اعتبار سے بھیڑ، بکری سے بھی کم عقل ہیں جن کو ہم (Retarded) کہتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ۔۔۔
انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات بنائی ہے۔ انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو مسخر کر دیا ہے۔ انسان جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے چاند کو اور سورج کو، زمین کو، آسمان کو، ستاروں کو محکوم کر دیا ہے۔ انسان کس بنیاد پر حیوانات سے ممتاز ہے۔۔۔
جہاں تک چاند اور سورج کی روشنی کا تعلق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چاند کا مسخر ہونا یہ ہے کہ چاند کی چاندنی سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سورج کی دھوپ سے انسان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ سورج انسان کو روشنی پہنچاتا ہے، دھوپ پہنچاتا ہے اس لئے سورج انسان کے لئے مسخر ہے تو یہ بات بڑی عجیب ہے۔ اس لئے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سورج کی تپش سے سورج کی روشنی سے درخت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، نباتات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور جمادات کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔
چاند کی چاندنی سے اگر انسان کے اندر سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو چاند کی چاندنی سے دوسرے حیوانات میں بھی یہی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
ایک پرندہ ہے چکور، جب چاند کی چاندنی شباب پر ہوتی ہے تو وہ چکور چاند کی چاندنی سے ہم آغوش ہونے کے لئے اڑتا ہے اور اتنا اڑتا ہے اتنا اڑتا ہے کہ گر کر مر جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چکور کا اور انسان کا موازنہ کیا جائے تو چاند کی کیفیت سے سرشاری چکور کے اندر زیادہ ہے۔
رات کی تاریکی سے انسان کے اندر سکون پیدا ہوتا ہے اور ذہن کے اندر ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ اعصاب کو آرام ملتا ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے پرندے بھی ہیں جو رات کے اندھیرے میں اپنا سارا کام کرتے ہیں مثلاً اُلّو کو دن میں نظر نہیں آتا۔ رات میں نظر آتا ہے۔ اب ہم یوں عرض کریں گے کہ اُلّو کا، چمگادڑ کا اور انسان کا موازنہ کیا جائے تو اُلّو اور چمگادڑ آدمی کی نسبت اندھیرے میں دیکھنے کیلئے زیادہ باصلاحیت ہیں چونکہ وہ آدمی کے برعکس رات کو اندھیرے میں دیکھتے ہیں۔
دن کی روشنی کا بھی یہی حال ہے۔ دن کی روشنی سب مخلوق کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اسی طرح رات کے تاثرات سے ہر مخلوق متاثر ہوتی ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جس کی بنیاد پر چاند، سورج، زمین، آسمان، ستارے اور فرشتے انسان کے لئے محکوم کر دیئے گئے۔ یہ حاکمیت نہیں ہے کہ چاند سے آپ کو چاندنی ملے گی۔ یہ حاکمیت نہیں ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے۔ مغرب میں غروب ہوتا ہے اور آپ اس کی دھوپ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی دھوپ سے تو ہر مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے۔
قرآن پاک میں جب ہم انسان کا اور دوسری مخلوقات کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے نئے نئے علوم سیکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ یہ وصف صرف انسان میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسری تمام مخلوقات سے اس لئے ممتاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک اضافی صلاحیت رکھ دی ہے۔
وہ اضافی صلاحیت یہ ہے کہ اس صلاحیت سے آدمی نئے نئے علوم سیکھتا اور ایجادات کرتا ہے۔ کوئی بھی علم ہو، سائنس ہو، اردو ہو، دوسری کلاس پڑھی ہو، بی اے کیا ہو، ایم اے کیا ہو۔ اس کی وجہ علم سیکھنے کی صلاحیت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو غیب نہیں آتا یا غیب نہیں سیکھ سکتا۔ وہ عقل و شعور کے خلاف ہے۔
اگر ہم علوم سیکھنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کریں گے تو ہمارا شمار حیوانات میں تو ہو سکتا ہے۔ انسانوں میں نہیں ہو سکتا۔
محلہ میں ایک ہزار آدمی رہتے ہیں اور اسی محلے میں دو آدمی Ph.Dہیں۔ ظاہر ہے ایک ہزار آدمی کی حیثیت ان دو Ph.Dکے مقابلے میں کم ہے۔ علمی اعتبار سے ہمیشہ ان دو افراد کو فضیلت حاصل ہو گی۔ اس طرح چار بھائی ہیں۔ تین بھائی جاہل ہیں ایک بھائی پڑھ لکھ گیا تو اس گھر میں علمی اعتبار سے ایک بھائی کو فضیلت حاصل ہو گی۔ انسان کی فضیلت علم کی بنیاد پر قائم ہے۔
حضر ت جبرا ئیل ؑ
سیدنا حضورﷺ کے پاس حضرت جبرائیل ؑ غار حرا میں تشریف لائے اور فرمایا
’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘
دیکھیں نبی آخر الزماںﷺ جس کیلئے اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات بنائی جو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ افضل اور سب سے زیادہ بزرگ بندے اور پیغمبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ وہاں بھی علم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
’’اقراء باسم ربک الذی خلق‘‘
پڑھ اپنے رب کے حکم سے۔(سورۃ العلق۔ آیت۱)
یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ محبوب بندہ جس کے لئے ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان(ﷺ) کو بھی علم سکھایا۔ اسی طرح جتنے بھی پیغمبران علیہم السلام ہیں۔
قرآن، توریت، زبور، انجیل دوسری کتابیں صحیفے یہ سب علم ہیں۔
حضور پاکﷺ نے فرمایا ہے
’’ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر علم سیکھنا فرض ہے۔‘‘
ان تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں نے ترقی کی۔ مسلمانوں نے ساری دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ مسلمانوں نے جو سائنسی ایجادات اور ترقی کی وہ چھپی ہوئی نہیں ہے۔
لیکن جیسے جیسے حضور پاکﷺ کے دور سے دور ہوتے گئے۔ اغیار کی سازش سے اور اپنی لاپروائی یا سستی اور کاہلی سے ہم علم سے دور ہوتے چلے گئے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ جو ہمارے اسلاف ساری دنیا پر حکمرانی کرتے تھے۔ آج ہم اور ہمارے اسلاف ان ہی کے غلام ہیں جو کل ہمارے محکوم تھے۔ اگر ہمیں اپنی نسل کو پروان چڑھانا ہے اگر ہمیں دوبارہ اقتدار اعلیٰ حاصل کرنا ہے۔ اگر ہمیں غلام اور محکوم بن کر زندہ نہیں رہنا ہے تو ہمیں کیا کرنا ہو گا؟
غیر مسلموں کا تسلط مسلمانوں کے اوپر کیوں ہے؟
علم کی وجہ سے۔
ہمارے پاس تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کتاب (قرآن پاک) ہے۔ جس میں وہ تمام علوم ہیں جن کی بنیاد پر ہم سرخرو ہو سکتے ہیں اور تمام دنیا پر ہماری حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔
کائنات کے تسخیری فارمولے قرآن پاک میں موجود ہیں۔ کس طرح زندہ رہیں۔ اس کے تمام طریقے موجود ہیں، کھانے کے آداب، پانی پینے کے آداب، کاروبار کرنے کے آداب، دوستوں کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق، کونسا ایسا شعبہ ہے جو قرآن پاک میں موجود نہیں ہے۔
قرآن کا مطلب کیا ہے؟
قرآن کا مطلب ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کے علوم کی ایک دستاویز ہے۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جس میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا۔ انسان اس بنیاد پر بھیڑ بکری سے افضل نہیں ہے کہ اس کے اندر عقل ہے بلکہ انسان بھیڑ، بکریوں سے اس لئے افضل ہے کہ اس کے اندر علوم سیکھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔