Topics

دس سال

دس سال شعور و لاشعور کی محاذ آرائی جاری رہی اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی قربت سے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خصوصی توجہ اور نسبت سے شعور نے مزاحمت ختم کر دی۔

دس سال بعد صورتحال یہ ہو ئی

مرشد کریم جو کچھ فرماتے تھے مِن و عن اس پر عمل ہوتا تھا۔ ذہن میں کوئی خیال نہیں آتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ذہن ٹھہرے ہوئے سمندر کی طرح ہے۔ جو بات جتنی فرما دی اتنی سمجھ میں آ جاتی تھی۔ لفظوں کا کوئی مفہوم ذہن میں آتا نہ کوئی معانی سمجھ میں آتے تھے۔ نہ حکمت سمجھ میں آتی تھی۔ مرشد نے فرما دیا درخت۔ بس درخت۔ کونسا درخت ہے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔

تربیت کا یہ سلسلہ دس سال سے تجاوز کر کے ۱۶ سال تک قائم رہا۔ ۱۰ سال اذیت میں گزر گئے اور ۶ سال اس اذیت کو بھولنے میں صرف ہوئے۔ ۱۶ سال کے عرصے میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ عالمین میں جہاں بھی جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

قادرِمطلق اللہ تعا لیٰ

اللہ تعالیٰ ہر شئے پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو بندہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو بندہ جوان ہو جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو بندہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ پیدا ہوا، جوان ہوا، بوڑھا ہوا اور مر گیا۔ یہی دنیا کی زندگی ہے۔ پیدا ہوا تو کچھ ساتھ نہیں لایا۔ مرا تو کچھ ساتھ نہیں لے گیا۔ محلات بنائے، کارخانے لگائے، دکانیں سجائیں اور روزگار کے حصول میں اس طرح جدوجہد کی کہ آخرت کی زندگی بھول گیا۔ دنیا بھی خراب عاقبت بھی خراب۔ اچھا آیا تھا بُرا چلا گیا۔ کومل معصوم بچہ کرخت اور خشک چہرہ بن گیا۔

یہ بات سولہ سال میں سمجھ آئی۔ ماشاء اللہ آپ سب سمجھدار ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہاں کوئی آدمی نہ کچھ لے کر آتا ہے نہ کچھ لے کر جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا یقین آدمی کے اندر پیدا نہیں ہوتا۔ یقین پیدا ہونے کے لئے آدمی یہاں کچھ لے کر نہیں آتا اور کچھ لے کر نہیں جاتا۔ مقصد حیات کو سمجھنے اور اس یقین کو مستحکم ہونے کے لئے سولہ سال کے شب و روز صرف ہوئے۔ 

شب روز سولہ سال مرشد کریم کی قربت نے یقین کا پیٹرن (Pattern) تخلیق کیا کہ انسان نہ پیدا ہونے پر با اختیار ہے اور نہ زندہ رہنے پر اسے قدرت حاصل ہے۔ آدمی کو اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ مجھے کہاں پیدا ہونا ہے؟ سید کے گھر، پٹھان کے گھر، شیخ کے گھر یا کسی چمار کے گھر۔ جاپان میں پیدا ہونا ہے، امریکہ میں پیدا ہونا ہے، بھارت میں پیدا ہونا ہے یا پاکستان میں پیدا ہونا ہے؟

جب اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کہاں پیدا ہونا ہے؟ کس کے گھر پیدا ہونا ہے تو بااختیار ہونا زیر بحث نہیں آتا۔ آپ پیدا ہو گئے جہاں اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ چمار کے ہاں چاہا چمار کے ہاں پیدا ہو گئے۔ بادشاہ کے ہاں چاہا۔ بادشاہ کے گھر پیدا ہو گئے۔ چپٹی ناک سے پیدا کر دیا۔ آپ چپٹی ناک سے پیدا ہو گئے۔ کھڑی ناک سے پیدا کیا۔ آپ کھڑی ناک سے پیدا ہو گئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کوتاہ قد کر دیا تو کوتاہ قد ہو گئے۔ دراز قد کر دیا تو دراز قد بن گئے۔ کالا بنا دیا تو آپ کالے پیدا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے گورا بنا دیا تو آپ گورے پیدا ہو گئے۔

ہم جتنا بھی غور کریں گے یہ جواب ملے گا کہ پیدا ہونے پر کوئی شخص کوئی فرد کسی بھی طرح بااختیار نہیں ہے۔ بے اختیار آدمی پیدا ہو گیا اسے اس بات کا بھی اختیار نہیں کہ وہ پیدا ہونے کے بعد جوان ہو جائے گا اگر پیدا ہونے کے بعد سال، دو سال میں اس پر موت وارد ہو گئی تو جوانی نہیں آئی؟

جوان ہونے کے بعد بھی آدمی مر جاتا ہے اور بڑھاپا آنے سے پہلے بھی مر جاتا ہے اور بڑھاپا آنے کے بعد بھی نہیں مرتا۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پیدا ہونے پر کوئی اختیار نہیں اسی طرح مرنے پر بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔ زندہ رہنے پر بھی کوئی اختیار نہیں۔

موت حفاظت کرتی ہے

حضور قلندر بابا اولیاءؒ ارشاد فرماتے ہیں!

’’انسان بیوقوف ہے، موت سے ڈرتا ہے جبکہ موت انسان کی سب سے بڑی محافظ ہے۔‘‘

ملک الموت کی جہاں یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ روح قبض کرے۔ ملک الموت کی یہ بھی ڈیوٹی ہے کہ وقت معینہ سے پہلے کسی آدمی کی روح قبض نہ کرے۔ انسان کی سب سے بڑی محافظ موت ہے جبکہ آدمی موت سے ڈرتا ہے۔ موت سے آپ ڈریں یا نہ ڈریں اگر عمر باقی ہے تو ملک الموت پابند ہے کہ آپ کو دنیا سے نہ لے جائے اور اگر وقت پورا ہو گیا ہے تو آپ ایک سیکنڈ بھی دنیا میں نہیں رہ سکتے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس حقیقت سے دنیا کا کوئی ایک فرد انکار نہیں کر سکتا۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔