Topics

پچاس سال

میری زندگی کے پچاس سال روحانیت کے ارد گرد گھوم رہے ہیں۔ پچاس سال سے ایک ہی بات کہہ رہا ہوں۔ ایک ہی موضوع پر آپ سے گفتگو ہوتی ہے۔ اس عرصہ میں اتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے کہ جب میں کچھ بولنا چاہتا ہوں تو ذہن پر وہ نقوش ابھر آتے ہیں جو آپ کے گوش گزار کئے جا چکے ہیں۔

کسی موضوع یا عنوان پر لکھنا چاہتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ یہ سب لکھا جا چکا ہے۔ یہی حال تقریر کا ہے۔ (ملکی اور غیر ملکی دوروں میں اب تک ہزاروں تقاریر کر چکے ہیں) اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اس عاجز بندے نے مختلف طریقوں سے روحانی علوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

میں مشکور ہوں کہ آپ نے پذیرائی بخشی۔ میں اس بات سے واقف ہوں جب تجربہ اور مشاہدہ زندگی بنتا ہے تو شاگردوں کی توقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

زندگی کا فلسفہ

عزیزانِ گرامی!

ہر آدمی چاہتا ہے کہ وہ خوش رہے۔ صحت مند رہے، اسے کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہر دوسرا آدمی تلقین کرتا ہے کہ خوش رہا کرو۔ آدمی کوئی چیز ساتھ نہیں لے جاتا۔ آدمی کپڑے پہنے ہوئے پیدا نہیں ہوتا، مرتا ہے تو کپڑے قینچی سے کاٹ دیئے جاتے ہیں۔

زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ نہیں لاتا اور مرتا ہے تو اپنے ساتھ کچھ نہیں لے جاتا۔ زندگی میں کوئی اختیار نہیں لیکن ہر آدمی خود کو بااختیار سمجھتا ہے، اختیار نہیں ہے تو خوش کیسے رہے گا۔ اختیار ہے تو ناخوش کیوں ہوتا ہے؟ جو کہتا ہے کہ خوش رہا کرو وہ بھی غمگین نظر آتا ہے اور جو غمگین ہوتا ہے وہ بھی خوش ہونے پر مجبور ہے۔

دنیا میں کوئی عمل دو رخوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آدمی خوش رہے گا تو ناخوش بھی ہو گا۔ ناخوش ہو گا تو خوش بھی رہے گا۔ یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہے۔ لفظوں کا گورکھ دھندا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آدمی خوش رہنے سے واقف ہے اور نہ اسے یہ معلوم ہے کہ غم کیا ہے؟

اسے پانی کی ضرورت ہے پانی ہر جگہ موجود ہے۔ سردی گرمی سے بچنے کے لئے بنیادی ضرورت مکان ہے۔ مکان بنانے کے لئے زمین پہلے سے موجود ہے۔ زمین نہ ہو تو مکانات تعمیر نہیں ہوں گے۔

زندگی کے لئے بنیادی ضروریات آدمی کی پیدائش سے پہلے اور آدمی کے مرنے کے بعد موجود رہتی ہیں۔ جو چیزیں پہلے سے موجود ہیں وہ مرنے کے بعد بھی موجود رہیں گی۔ ان کے لئے ناخوش ہونا اپنے اوپر ظلم ہے اور ظلم ہی ناخوشی ہے۔ زندگی میں کام آنے والی بنیادی چیزیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح فراہم کر دی ہیں کہ انسان کو ملتی رہتی ہیں۔

عزیز دوستو!

غور کیجئے اللہ تعالیٰ زمین نہ بناتے، گیہوں کا دانہ تخلیق نہ ہوتا۔ چاول بیج نہ بنتا۔ دھوپ نہ نکلتی تو غذائی ضروریات پوری نہ ہوتیں؟

انسا نی مشین

اللہ تعالیٰ چوپائے اور پرندے پیدا نہ کرتے تو گوشت کہاں سے ملتا؟ ہم دودھ کہاں سے پیتے؟ 

انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر کی مشینری پر تفکر کرے۔ انسانی مشین چلانے میں آدمی کا ذاتی اختیار کیا ہے؟

اقتدار کی خواہش انسان کے اندر اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اندر مشین چلتی رہے۔ دل دھڑکتا رہے۔ آنتیں حرکت کرتی رہیں۔ گردے ڈائیلاسس کرتے رہیں۔ دماغ سگنل وصول کرتا رہے۔ سیلز (Cells) اعصاب کو متحرک رکھیں۔ آنکھ دیکھتی رہے۔ ڈیلے حرکت کرتے رہیں۔ پلک جھپکتی رہے، دماغ پر عکس منعکس ہوتا رہے۔ دماغ اطلاعات قبول کرتا رہے اور انسان کے اندر بصیرت ہو، عقل ہو لیکن اگر آنکھ نہ ہو تو آدمی دیکھ نہیں سکتا۔ دل نہ ہو تو حرکت معدوم ہو جائے گی۔

انسان کا زمین پر آنا ابھی موقوف نہیں ہوا۔ عالم ارواح سے چلنے والے قافلے کو سفر طےکرنا ہے۔ دنیا سے گزرنا ہے۔

وسائل کی قدر و قیمت اگر اس حد تک ہو کہ وسائل استعمال کے لئے بنائے گئے ہیں تو آدمی خوش رہتا ہے اور جب کوئی انسان وسائل کی قیمت اتنی لگا دیتا ہے کہ اس کی اپنی قیمت کم ہو جائے تو آدمی ناخوش ہو جاتا ہے۔ انسان دنیا والوں سے توقعات قائم کر لیتا ہے تو اس کے اوپر خوشی اور غم اس لئے مسلط ہو جاتے ہیں کہ جس سے توقعات قائم کی گئی ہیں وہ خود محتاج ہے۔

راضی برضا

امام ابوحنیفہؒ کپڑے کے بڑے سوداگر تھے۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا۔ ’’سمندر میں جہاز ڈوب گیا ہے اور کروڑوں کا نقصان ہو گیا ہے۔‘‘


امام ابو حنیفہؒ چند سیکنڈ خاموش رہے اور کہا۔ ’’یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘

کچھ عرصہ بعد خبر آئی جو جہاز ڈوبا تھا وہ امام اعظم کا نہیں بلکہ دوسرے سوداگر کا تھا۔ امام اعظم کا جہاز ساحل پر لگ گیا ہے اور بہت نفع ہوا ہے۔ سیکرٹری نے خوشی خوشی اطلاع دی۔

امام اعظم نے کہا ! ’’یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے۔‘‘

سیکرٹری نے پوچھا۔ ’’جہاز ڈوبنے کی خبر پر شکر کرنے کا کیا مطلب ہے؟‘‘

امام اعظم نے فرمایا۔’’میں نے دونوں دفعہ دل میں دیکھا۔ معلوم ہوا کہ دل پر خوشی یا ناخوشی کا اثر نہیں ہوا۔

دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال تھا۔

دوسری مرتبہ بھی دل نے کہا اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔

اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نقصان ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو نفع ہو گیا۔ میں نے اس بات پر شکر کیا کہ دینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے ، لینے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے۔

میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ راضی برضا ہوں اس لئے دونوں مرتبہ میں نے شکر ادا کیا ہے۔‘‘

یہ کیسی نادانی ہے کہ ۶۰ سال کا آدمی ۶۱ویں سال میں داخل ہونے کے لئے پریشان ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ پیدائش کے پہلے دن سے ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ نے ہر طرح میری کفالت کی ہے۔ میں بھوکا نہیں سویا۔ ننگا نہیں رہا۔ ایک تھا ایک سے دو ہوا۔ دو سے آٹھ ہوئے۔ بچوں کی شادیاں کیں، بچوں کے بچے ہوئے، بچوں کے بچوں کی تقریبات کیں۔

انسان اپنی مرضی پر کبھی غور نہیں کرتا کہ میں پیدا ہوا میری پرورش ہوئی، بچے ہوئے بچوں کے بچے ہوئے۔ پیدا ہوا تو میرے پاس جھونپڑی نہیں تھی اور میں اب ساٹھ سال کا ہوں۔ میرے تمام بچوں کے پاس زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔

یہ خیال کیوں نہیں آتا؟

اس لئے نہیں آتا کہ آدمی ذات کے خول میں بند ہے انسان مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے لیکن گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہیں کرتا۔ روحانی نقطہ نظر سے زندگی انسان کی ہو، زندگی سیاروں کی ہو، سورج یا چاند کی ہو یا درخت کی ہو یا کسی اور مخلوق کی ہو۔۔۔ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔


زمانے کو بُرا نہ کہو، زمانہ اللہ تعالیٰ ہے(حدیث)

سیدنا حضورﷺ کا ارشاد عالی مقام ہے!

’’زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘

یعنی پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ وہی خالق و مالک ہے۔ وہ رازق ہے۔ ہر شئے کے لئے وسائل فراہم کرنا اس نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔ زندگی حال ہے مستقبل ہے یا ماضی؟

ہمیں بچشم تفکر، حال اور مستقبل کا وجود نظر نہیں آتا۔

ہر لمحہ ریکارڈ ہو رہا ہے اور ریکارڈ ہو جانا ماضی ہے۔۔۔ماضی۔۔۔حال اور مستقبل تقسیم کا عمل ہے۔ حال ماضی بن رہا ہے اور مستقبل ماضی میں دفن ہو رہا ہے۔ انسان سوچتا ہے کل کیا ہو گا؟ لیکن کل کا وجود ہے کہاں؟

انسان آنے والے کل کو کل کہتا ہے یہ نہیں دیکھتا کہ غروب آفتاب کے بعد کل ماضی بن جاتا ہے۔ 

یہ ساری کائنات حرکت ہے۔۔۔حرکت ازل سے جاری ہے۔ حرکت اگر نہیں رہے گی تو کائنات تھم جائے گی۔ انسان کائنات پر حاکم ہے۔ کائنات پر حاکمیت کا اختیار اللہ تعالیٰ کا تفویض کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت کائنات اور کائنات میں موجود ہر شئے انسان کی محکوم اور رعایا ہے۔

جب کوئی بندہ حاکمیت کے اختیارات سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کے اندر سے غم اور خوف نکل جاتا ہے۔

حرکت کے علوم سے واقف بندہ پر یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ ہم جس کو حال اور مستقبل کہتے ہیں وہ ماضی کے نقوش ہیں۔

مثال

ہم تیس ۳۰ سال کے لئے پروگرام بناتے ہیں اور اس پروگرام پر عمل کرنے کے لئے ہم تیس سالوں کو پانچ پر تقسیم کر دیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ تیس سال پہلے (ماضی میں) جو پروگرام بنا ہے چھ وقفوں میں اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پروگرام ۳۰ سال کے لئے ترتیب دیا جاتا ہے۔

’’پروگرام کے مطابق، جو بھی کوشش اور جدوجہد کی جاتی ہے وہ ماضی کے نقوش میں رنگ آمیزی ہے۔‘‘

جب کوئی قوم ماضی سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے اور اسلاف کے نقوش قدم پر عمل پیرا ہو کر اپنی حالت سنوارنے کے لئے عملی اقدام نہیں کرتی۔ کوشش، حرکت، عمل اس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں تو ایسی قومیں زمین سے نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ جو قومیں ماضی سے اپنا رشتہ مستحکم رکھتی ہیں اور اسلاف کے کارناموں کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر عمل کرتی ہیں وہ عروج و ترقی کے محلات تعمیر کرتی ہیں۔

اگر انسان فی الواقع خوش رہنا چاہتا ہے تو وہ روزانہ ماضی کو یاد کرے اور حساب لگائے کہ اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سالہ زندگی میں کتنی نعمتیں عطا کی ہیں۔ انسان اپنے جیسے انسانوں سے توقعات توڑ کر اللہ تعالیٰ سے توقعات قائم کر کے جدوجہد کرے تو وہ محدودیت سے نکل جاتا ہے۔ وہ ایسے لامحدود دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں خوف اور غم نہیں ہے۔

خوشی ایک فطری عمل ہے جبکہ ناخوش ہونا اور غمگین ہونا غیر فطری عمل ہے۔ ناخوش انسان خود اپنے حال سے دور ہو جاتا ہے جبکہ خوش رہنے والا انسان اپنی ذات میں انجمن ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کے گرویدہ ہوتے ہیں۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے!

’’اللہ تعالیٰ کے دوستوں کو خوف اورغم نہیں ہوتا۔‘‘(سورۃ یونس۔ آیت ۶۲)

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔