Topics
مورخہ 9مئی 2001 ء بروز بدھ
ہم جو بھی عمل کرتے ہیں وہ نیکی ہو یا برائی اس کی فلم بنتی رہتی ہے۔ کراماً
کاتبین ہمارے اعمال کو لکھتے رہتے ہیں (یعنی ویڈیوم فلم بنتی رہتی ہے)۔
تمثال
لوح محفوظ پر فلم بنی ہوئی ہے، اس فلم میں تمام اعمال ریکارڈ ہیں، نیکی بھی اور
برائی بھی۔ لوح محفوظ میں لکھا ہے کہ بندہ نماز پڑھے گا، روزہ رکھے گا۔ بندہ کبھی
نماز پڑھتا ہے، کبھی نہیں پڑھتا، کبھی روزہ رکھتا ہے، کبھی نہیں رکھتا۔ کبھی حلال
رزق کھا لیا، کبھی حرام۔ کبھی سچ بولا اور کبھی جھوٹ۔
مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ
فرماتے ہیں کہ
’’طرز فکر سوچنے کا ایک انداز ہے۔ اگر
طرز فکر مثبت نہیں ہے تو بندہ اپنی روح سے دور ہو جاتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہؓ کے پاس ایک خاتون آئیں
اور اپنی عبادت کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ وہ خاتون ساری رات عبادت کرتی ہیں اور
دن میں روزے رکھتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ خوش ہوئیں، ان کی خاطر تواضع کی۔ جب وہ چلی
گئیں تو یہ بات حضورﷺ کو بتائی۔
آپﷺ نے فرمایا۔ ’’عمل تھوڑا ہو لیکن مستقل ہو۔‘‘
ہم کوئی بھی کام اپنی سکت سے زیادہ
کریں گے تو بیمار ہو جائیں گے۔ کھانا کھانا ایک روٹین ہے، کوئی زیادہ کھانا کھاتا
ہے، کوئی کم کھاتا ہے۔ کھانا گنجائش سے زیادہ کھا لیا جائے تو طبیعت بوجھل ہو جاتی
ہے اور صحت خراب ہو جاتی ہے۔
مستقل عمل ہمیں لامحدودیت میں داخل کر
دیتا ہے۔ اچھا عمل روح کو طاقت دیتا ہے۔ مثبت طرز فکر انسان کو روح سے قریب کرتی
ہے۔
آپ کیا سمجھے مثبت طرز عمل کیا ہے اور
منفی طرز عمل کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ
السلام کو کائنات کی خلافت عطا فرمائی تو فرشتوں کے سامنے آدم علیہ السلام کو پیش
کیا۔ فرشتوں نے عرض کیا کہ آدم علیہ
السلام فساد برپا کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو
علم الاسماء سکھایا اور آدم علیہ السلام سے فرمایا۔۔۔
’’یہ علم فرشتوں کے سامنے بیان
کرو۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت۳۱)
حضرت آدم علیہ السلام نے جب اللہ
تعالیٰ کے سکھائے ہوئے علوم بیان کئے تو فرشتوں نے عرض کیا۔
’’ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا علم
آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت۳۲)
لیکن ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان
کے خلاف بغاوت کی اور وہ راندۂ درگاہ ہو گیا۔ ابلیس نے کہا کہ۔۔۔
’’آدم علیہ السلام مٹی سے تخلیق ہوا اور میری تخلیق آگ
سے ہوئی ہے اور آدم کو سجدہ (آدم کی حکمرانی قبول نہیں کی) نہیں کیا۔‘‘(سورۃ
الاعراف۔ آیت ۶۸)
حضرت آدم علیہ السلام اور راندۂ درگاہ شیطان۔۔۔یہ دو کردار ہوئے۔
۱۔ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی
حکمرانی قبول کر کے عاجزی انکساری اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا۔
۲۔ شیطان نے حکم عدولی کی اور نافرمانی
کا مرتکب ہوا۔ بلکہ یہی نہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے گستاخی کا مظاہرہ کیا۔
ایک کردار میں اطاعت اور فرمانبرداری
ہے اور دوسرے کردار میں نافرمانی، گستاخی اور حکم عدولی ہے۔
اس سلسلے میں عقلی توجیہہ یہ ہے کہ
مٹی سے پھول، پھل اور درخت پیدا ہوتے ہیں۔ ترکاریاں سبزیاں اور بے شمار چیزیں جو
انسانوں کی زندگی کے لئے ضروری ہیں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس آگ کا وصف یہ
ہے کہ وہ جلا دیتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔