Topics

سائنس اور روحانیت

سائنسدان جو سوچتے ہیں انہیں اپنی سوچ کا جواب ملتا ہے لیکن سائنسدان سوچ میں وہی معنی پہناتے ہیں جو پہلے سے ان کا علم ہے۔ اس علم میں قبولیت ہوتی ہے یا تردید ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر عالم اپنے علم اور اپنے ماحول میں رائج اعتقادات کے دائرے میں کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے۔

قرآن پاک کی تعلیمات اور سائنس میں بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن پاک ماورائی دنیا سے باہر کی ہر شئے کو فکشن یا مفروضہ قرار دیتا ہے اور حقیقت بینی کے لئے اندر دیکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔

فلکیات کے ماہر جب ستاروں کی بات کرتے ہیں تو ستارے اور آدم کا رشتہ اس طرح جوڑتے ہیں کہ فلاں ستارہ سعید ہے اور فلاں ستارہ نحس ہے۔

آدمی ستارے کی ساڑھ ستی میں آ جائے تو حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ ساڑھ ستی سے نکل آئے تو حالات اچھے ہو جاتے ہیں۔

قرآن کا اس سلسلے میں اپنا ایک فیصلہ ہے!

’’اور مسخر کر دیا تمہارے لئے جو کچھ سماوات میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب۔‘‘(سورۃ الجاثیہ۔ آیت ۱۳)

لیکن جب ہم ستاروں سے متعلق دنیا میں رائج انسانی علوم پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم ستاروں کے محکوم اور ستارے ہم پر حاکم ہیں۔ ہم رات اور دن کے وقفوں کو الگ الگ یونٹ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ قرآن کہتا ہے کہ

’’کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ  رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت ۲۹)

سائنسدان مادی زندگی کو اصل قرار دیتے ہیں لیکن مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ ہم رات کو خواب میں جنسی تلذذ حاصل کرتے ہیں۔ صبح بیدار ہونے پر اسی طرح ناپاک ہوتے ہیں جس طرح بیداری میں جنسی عمل کے بعد ہمارے اوپر غسل واجب ہوتا ہے۔ 

آج کا بچہ چند منٹ کے بعد ماضی میں چلا جاتا ہے لیکن گزرے ہوئے چند منٹ نے حال اور مستقبل دونوں سے رشتہ توڑ لیا ہے۔

ہم نے زندگی کو حال، ماضی اور مستقبل پر تقسیم کیا ہوا ہے۔ لیکن ادراک کو کام میں لایا جائے تو عالم رنگ و بو ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آج میں اگر 82سال (تاریخ پیدائش 17-10-1927، خواجہ شمس الدین عظیمی) کا بوڑھا ہوں تو دراصل یہ 82سال میرا ماضی ہے۔

قرآن کے مطابق ہماری دنیا، سماوات، ارض، عالمین، ستارے، سیارے، کہکشانی نظام، عرش و کرسی اور ہم سب ماضی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کھربوں سال پہلے (ماضی میں) کائنات کو تخلیق کیا۔ فی الوقت کھربوں سال پہلے بنی ہوئی کائنات اپنا مظاہرہ کر رہی ہے۔


Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔