Topics

لیکچر17 ۔ ادراک یا حواس


مورخہ 18اپریل 2001 ؁ء بروز بدھ

 

سوال:

 ادراک کیا ہے۔ حواس اور ادراک میں کیا فرق ہے؟

جواب:

 کسی بھی چیز کو سمجھنے کیلئے چار Stagesسے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا Stageواہمہ ہے۔ واہمہ میں گہرائی پیدا ہوتی ہے تو خیال بنتا ہے۔ خیال گہرا ہوتا ہے تو تصور بن جاتا ہے۔ اس کے بعد مظاہرہ ہو جاتا ہے۔

مثال

جب ہمیں پیاس لگتی ہے تو پہلے واہمہ ہوتا ہے۔ پھر خیال پھر تصور پھر مظہر بن جاتا ہے۔ پانی ہے تو پیاس محسوس ہوتی ہے اور پیاس ہے تو پانی ہے۔ پہلے بھوک لگتی ہے اس کے بعد روٹی کی طرف ذہن جاتا ہے۔ پیاس لگتی ہے تو پانی کی طرف ذہن جاتا ہے۔
ہر تقاضادو رخوں پر قائم ہے۔ گرمی ہے تو سردی ہے، سردی ہے تو گرمی ہے۔ تکلیف ہے تو راحت ہے۔ راحت ہے تو تکلیف ہے۔ اگر تقاضے نہ ہوں تو تقاضوں کی تکمیل کرنے والی اشیاء بھی نہیں ہونگی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔۔۔

’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں۔‘‘(سورہ یٰس۔ آیت ۳۶)

مثلاً مٹھاس اس لئے ہے کہ اس کے بالمقابل کھٹی کڑوی چیزیں موجود ہیں۔ گرمی کا وجود اس لئے ہے کہ سردی کا وجود ہے۔ جن علاقوں میں گرمی ہوتی ہے یا سردی ہوتی ہے۔ وہاں کبھی گرمی زیادہ ہوتی ہے، کبھی کم گرمی ہوتی ہے۔ سرد علاقے میں کبھی زیادہ سردی ہوتی ہے، کبھی کم سردی ہوتی ہے۔

کائنات کی ہر شئے دو رخوں پر قائم ہے اور ہر رخ چار رخوں سے مرکب ہے۔ اور جو چیز ان چار رخوں کا احاطہ کرتی ہے اسے ادراک کہتے ہیں۔ہم دو جسموں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ایک مادی جسم اور دوسرا روحانی جسم۔ مادی جسم میں مکانیت(Space) کا غلبہ رہتا ہے، اس کے برعکس روحانی جسم میں زمانیت کا غلبہ رہتا ہے۔ روح زمان ہے اور جسم مکان ہے۔

مثال
زمان (Time) میں روشنی کے حواس کام کرتے ہیں اور مکان (Space) میں مادی حواس کام کرتے ہیں۔ جب تک کوئی چیز زمان میں نہیں ہے اس کا مظاہرہ مکان میں نہیں ہوتا۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔