Topics
لفظ ابراہیم ’’اب‘‘ اور ’’راحم‘‘ سے مرکب ہےجس کے معنی ہیں ’’مہربان باپ‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا انتقال ان کے بچپن میں ہو گیا تھا ان کے والد کا نام ’تارح‘ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پرورش ان کے چچا نے کی۔ چچا کا ذریعہ معاش بت تراشی تھا۔ ان کے بنائے ہوئے بتوں کو بادشاہ اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار پوجتے تھے۔
آذر کو ’ادار‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ ’ادار‘ بڑے پجاری یا مندر کے محافظ کو کہتے ہیں۔
قرآن کریم میں آذر کے لئے ’’ابیہ‘‘ (اس کا باپ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ’’اور‘‘ میں ہوئی جو جنوبی عراق میں فرات کے کنارہ بابل اور نینوا کے پاس آباد تھا۔ آج کل یہ مقام ’’تل ابیب‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
برٹش میوزیم اور فلاڈلفیا میوزیم کی مشترکہ ٹیم نے ایک شہر کے آثار دریافت کئے ہیں۔ وہاں سے ملنے والے کتبات کے مطابق پانچ ہزار بتوں کے نام ملے ہیں۔
بادشاہ کو سورج دیوتا کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ عوام نذر میں نقد رقم اور دوسری چیزیں مندر میں دیتے تھے۔ باغات، مکانات اور زمینیں مندر کے لئے وقف تھیں۔ پجاری کے فیصلے نعوذ باللہ خدا کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔ دربار شاہی میں سجدہ کیا جاتا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت سے پہلے نمرود نے خواب میں دیکھا کہ آسمان میں ایک روشن ستارہ چمک رہا ہے۔ نمرود نے یہ خواب نجومیوں کو بتایا کہ وہ خواب کی تعبیر بتائیں۔ نجومیوں نے کہا!
’’اس سال ملک میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو بادشاہ اور سلطنت کے لئے خطرہ ہے۔‘‘
بادشاہ نے شاہی فرمان کے ذریعے ملک بھر میں ہر عورت اور مرد کے (میاں بیوی) اختلاط پر پابندی لگا دی اور حکم جاری کر دیا کہ جو بھی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے۔
روایت میں ہے کہ اس ظالمانہ حکم کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ ’’اوشہ‘‘ شہر سے باہر ایک غار میں روپوش ہو گئیں۔ اس غار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بچپن اس غار میں گزارا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب جوان ہوئے اس وقت ایسا ماحول تھا کہ بت خانوں میں ہر طرف بت رکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نور فراست سے نوازا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیکھتے تھے کہ بت سنتے نہیں ہیں، دیکھتے نہیں ہیں، کسی بات کا جواب نہیں دیتے تو یہ کیسے کسی کو نقصان یا نفع پہنچا سکتے ہیں؟
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔۔۔
’’پھر جب رات کی تاریکی چھا گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک ستارہ دیکھا۔ فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں رکھتا، پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو فرمایا اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں، پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ اے قوم! بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں، میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (سورۃ انعام۔ آیت 79-76)
روایت کے مطابق جب کنعان کے پورے علاقے میں قحط پڑا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پڑوسی زرعی ملک مصر کی طرف ہجرت فرمائی۔ مصر میں فراعنہ کا دور تھا۔ پیشہ کے اعتبار سے یہ چرواہے تھے اور شاہی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ بادشاہ کو جب اطلاع ملی کہ ایک سامی نسل کے بزرگ آئے ہیں۔ بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت خاطر تواضع کی اور قدیم خاندان سے تعلق کی بناء پر بی بی سارہؓ سے نکاح کا پیغام دیا۔ لیکن جب اسے پتا چلا کہ بی بی سارہؓ شادی شدہ ہیں تو اس نے اپنی بیٹی حضرت ہاجرؓہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر کے تعلق استوار کر لیا۔
مال اور زر اور مویشی بھی پیش کئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک ۸۵ سال تھی۔ ابھی تک وہ لااولاد تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں صاحب اولاد ہونے کی دعا کی۔
’’اے میرے رب بخش مجھ کو کوئی نیک بیٹا۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔ آیت ۱۰۰)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر ہم نے اسے ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔‘‘(سورۃ الصٰفٰت۔ آیت ۱۰۱)
حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کا نام اشموعیل رکھا جو بعد میں کثرت استعمال سے اسماعیل ہو گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت محبت کرتے تھے گود میں لے کر پھرتے تھے اور کبھی اپنے کندھوں پر بٹھا کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سیر کراتے تھے۔
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت سارہؓ کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت کوشش کی کہ دونوں بیویوں کا اختلاف ختم ہو جائے اور وہ گھر میں پیار محبت سے رہیں مگر دونوں بیگمات میں ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوئی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بی بی ہاجرہؓ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ چلے جائیں۔ جب وادی ام القریٰ پہنچے۔ ماں بیٹے کو وہاں چھوڑ کر کھجوریں اور پانی کا مشکیزہ رکھ کر کچھ کہے سنے بغیر واپس جانے لگے تو بی بی ہاجرہؓ نے بے قرار ہو کر پوچھا۔
’’اے اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے! آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہے ہو؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ کے سہارے۔‘‘
بی بی ہاجرہؓ نے پوچھا۔ ’’کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ہاں! اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔‘‘
پاک باطن خاتون حضرت ہاجرہؓ نے عرض کیا۔ ’’آپ تشریف لے جائیں بے شک اللہ تعالیٰ ہمارا کفیل ہے، وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔‘‘
حضرت ہاجرہؓ چند روز تک کھجوریں کھاتی رہیں اور مشکیزہ سے پانی پیتی رہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں لیکن وہ وقت بھی آ گیا۔ پانی نہ رہا اور کھجوریں بھی ختم ہو گئیں کیونکہ وہ بھوکی پیاسی تھیں اس لئے دودھ بھی نہیں اترا۔
بچے کو جب بہت بھوک لگی تو وہ رونے لگا تو حضرت ہاجرہؓ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر دور جا بیٹھیں۔ کچھ سوچ کر قریب کی پہاڑی صفا پر چلی گئیں۔ سوچا کہ شاید کوئی آدمی نظر آ جائے یا کہیں پانی مل جائے۔ مگر کچھ نظر نہیں آیا۔پھر بچہ کی محبت میں دوڑ کر وادی میں آ گئیں اور کچھ دیر ٹھہر کر دوسری طرف مروہ پہاڑی پر چلی گئیں وہاں بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تو تیزی سے دوڑ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس آئیں اور اس طرح سات مرتبہ صفا اور مروہ کی طرف دوڑتی رہیں۔
زم زم
جب حضرت ہاجرہؓ مروہ پر تھیں تو کانوں میں سرگوشی ہوئی۔ یہ سرگوشی آواز بن گئی تو حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور فرمایا۔
’’اگر تم کچھ مدد کر سکتے ہو تو سامنے آؤ۔‘‘
دیکھا حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے ہیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے زمین پر پیر مارا اور اس جگہ سے پانی ابلنے لگا۔ یہ وہ ہی جگہ ہے جہاں آج کل زم زم کا کنواں ہے۔ جب زمین میں سے پانی ابلنے لگا تو حضرت ہاجرہؓ نے چاروں طرف سے منڈیر بنا دی خدا کی قدرت کا ظہور ہوتا رہا اور پانی کا چشمہ ابلتا رہا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فیض آج بھی جاری ہے۔ حضرت ہاجرہؓ نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلایا۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت ہاجرہؓ سے کہا۔ خوف اور غم نہ کر اللہ تعالیٰ تجھے اور اس بچہ کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ بیت اللہ کا مقام ہے۔ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کریں گے۔
اسی دوران بنی جرہم کا ایک قبیلہ آ کر ٹھہرا۔ قبیلہ کے ایک بزرگ نے دیکھا کہ کچھ دور آسمان پر پرندے اڑ رہے ہیں۔
جرہم نے کہا یہ پانی کی علامت ہے۔ جہاں یہ پرندے اڑ رہے ہیں وہاں پانی ضرور ہے۔ جرہم نے حضرت ہاجرہؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر قیام کی اجازت مانگی۔
حضرت ہاجرہؓ نے فرمایا۔ تم اور تمہارا قبیلہ قیام کر سکتے ہو۔ پانی کی ملکیت کے حصہ دار نہیں ہو گے۔ جرہم نے یہ بات بخوشی منظور کر لی۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے ہو گئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اخلاق کردار علم اور بزرگوں کا احترام چھوٹوں کے ساتھ شفقت جرہم کو بہت پسند آئی اور انہوں نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شادی کر دی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر جب سو سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بشارت دی کہ حضرت سارہؓ کے بطن سے ایک بیٹا ہو گا۔ بیٹے کا نام اسحاق رکھنا۔
حضرت ہاجرہؓ اور حضرت سارہؓ کے حالات میں ایسے اہم نکات موجود ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ دونوں خواتین انسانی تاریخ میں قابل فخر اور اہم خواتین ہیں۔ جس پر دنیا جتنا بھی فخر کرے کم ہے۔
چند اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ حضرت ہاجرہؓ شہزادی تھیں مگر انہیں حضرت سارہؓ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں دے دیا گیا تھا۔
۲۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔ نبی کی زوجہ ہونا خود ایک امتیاز اور فخر کی بات ہے۔
۳۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت اسماعیلؓ کی والدہ ہیں نبی کی والدہ ہونا بڑی عظمت کی بات ہے وہ بھی ایسے نبی کی والدہ جن کے اوپر انبیاء کی طرز فکر کی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ ایسے نبی جو اپنی قربانی کی وجہ سے تاریخ کا بے مثال باب ہیں۔
۴۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس جگہ حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا وہاں پانی نہیں تھا۔
۵۔ حضرت ہاجرہؓ کا دو پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک اس کو یادگار بنا دیا۔
۶۔ زم زم کے ظاہر ہونے سے پہلے حضرت ہاجرہؓ اور فرشتے کے درمیان گفتگو ہوئی۔ فرشتے کا تسلی دینا کہ اللہ تعالیٰ تم کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت ہاجرہؓ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ خاتون ہیں۔
۷۔ ایک ویران مقام پر حضرت ہاجرہؓ کے قیام کی وجہ سے مکہ شہر آباد ہوا اور مکہ شہر میں بیت اللہ شریف بنا۔
۸۔ خانہ کعبہ کو بھی حضرت ہاجرہؓ سے ایک خاص نسبت حاصل ہے کہ ان کے شوہر اور بیٹے نے مل کر اسے تعمیر کیا۔
۹۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ویرانے میں چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہؓ نے پوچھا کہ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہو۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مگرجب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ کر جا رہے ہو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔
’’ہاں، میں یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم سے کر رہا ہوں۔‘‘
اس وقت جو اطمینان حضرت ہاجرہؓ کو حاصل ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ، کامل یقین اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ظاہر کرتا ہے۔
۱۰۔ حضرت ہاجرہؓ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری زوجہ محترمہ تھیں۔ رسول اللہﷺ نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
۱۱۔ حضرت سارہؓ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی نسل میں بہت سارے پیغمبر پیدا ہوئے۔
۱۲۔ حضرت سارہؓ کا فرشتوں کو دیکھنا، گفتگو کرنا، ان کی عظمت و بزرگی کی علامت ہے۔
۱۳۔ حضرت سارہؓ کے یہاں نوے (۹۰) سال کی عمر میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی بشارت اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کا ایک کھلا ثبوت ہے۔
۱۴۔ حضرت سارہؓ کی طرف حاکم مصر کا بری نیت سے ہاتھ بڑھانا اور ہاتھ کا مفلوج ہو جانا اور بار بار ایسا ہونا یہ حضرت سارہؓ کی عظمت و کرامت ہے۔
خواتین کے فرائض
ان تمام وضاحتوں اور تفصیلات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خواتین صلاحیتوں میں کسی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ اپنے روحانی تشخص کو روشن کریں۔ عورتوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ کریں اور عورتوں کو ان کے حقوق سے باخبر کر دیں۔ بزرگ خواتین پر فرض ہے کہ قرآن فہمی کے بعد عورتوں (خواتین) کو بتا دیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیا حقوق عطا کئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بہت نوازا ہے۔ علم و آگہی کے موجودہ زمانے میں خواتین کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ جب تک خواتین اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت اپنی روحانی صلاحیتوں سے کام نہیں لیں گی۔ معاشرہ نہیں سدھرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں سے محروم رہنا بلاشبہ ناشکری اور کفران نعمت ہے۔ خواتین اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر معاشرہ میں عورت کا مقام بلند کر سکتی ہیں۔ عورت اور مرد دونوں اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے ہیں۔ سب کے اندر ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں تمہارے اندر ہوں تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں۔‘‘(سورۃ الذٰریٰت۔ آیت ۲۱)
’’میں تمہاری (مرد و عورت) کی رگ جان سے ز یادہ قریب ہوں۔‘‘(سورۃ ق۔ آیت ۱۶)
’’جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہو گی اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ہو وہ مومن ایسے لوگ جنت میں داخل ہونگے جہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا۔‘‘(سورۃ المومن۔ آیت ۴۰)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ (بلاتخصیص) مرد و عورت کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور گناہوں کو معاف کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔