Topics
جب کچھ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میری ربوبیت، خالقیت اور قدرت کا مظاہرہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جب یہ بات آئی کہ میری عظمت ظاہر ہو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ عظمت خالق کو پہچاننے اور اللہ تعالیٰ کو جاننے کے لئے کوئی مخلوق موجود ہو۔
خالق اور مخلوق
جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ میں پہچانا جاؤں خالق کے ارادے میں جو کچھ تھا قاعدوں، ضابطوں، فارمولوں اور شکل و صورت کے ساتھ عالم وجود میں آ گیا۔ عالم وجود کا نام کائنات ہے۔ کائنات ایک ایسے خاندان کا نام ہے جس میں بے شمار نوعیں ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان نوعوں میں فرشتے، جنات، انسان، جمادات اور نباتات، حیوانات، زمین، سماوات اور بے شمارکہکشانی نظام ہیں۔ خالق کائنات نے ان نوعوں کو سننے، دیکھنے، سمجھنے، خود کو پہچاننے اور دوسروں کو جاننے کی صلاحیت عطا کی۔ ان صلاحیتوں سے نوعوں نے یہ بات سمجھ لی کہ جس عظیم اور بابرکت ہستی نے انہیں تخلیق کیا ہے وہ قادر مطلق ذات اللہ تعالیٰ ہے۔
عظمت و ربوبیت اور خالقیت کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ ایسی مخلوق موجود ہو جو حکمت کائنات کے رموز سے واقف ہو۔ واقفیت کے لئے لازم تھا کہ مخلوق ان صفات کی حامل ہو جو کائنات کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفات پر تخلیق کیا اور اسے ان صفات کا علم عطا کر کے خلافت و نیابت سے سرفراز کیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔