Topics

اکیڈمی میں ورکشاپ

ممتاز روحانی اسکالر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ان دنوں برطانیہ کے دورے پر ہیں۔ اس ورکشاپ کی اہمیت کے پیش نظور انہوں نے ورکشاپ کے لئے برطانیہ سے بذریعہ Faxخصوصی پیغام بھیجا۔ کلاس سوئم کے طالب آغا منصور الحسن اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک نے یہ پیغام پڑھ کر سنایا۔

حضرت عظیمی صاحب نے فرمایا۔۔۔

خالق کی آواز گونج رہی ہے۔۔۔الست بربکم۔۔۔میں تمہارا رب ہوں۔۔۔(سورۃ الاعراف۔ آیت ۱۷۲)

خالق کائنات کی آواز اجزائے کائنات میں منتقل ہو گئی ہے اپنے اندر، اپنے من میں، خالق کی صدا کی گونج سنو۔۔۔

رب۔۔۔رب کا مطلب ہے پالنے والا۔ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی نے اپنا تعارف رب کی حیثیت سے کرایا ہے۔ ہر لمحہ، ہر آن صفت ربانیت کا ظہور ہو رہا ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ اپنے پالنے والے سے واقف ہے۔ اس کا تابع فرمان ہے۔

تابع فرمان، ذرات سے مرکب، اے انسان! دیکھ اور تفکر سے کام لے۔ ازل میں فرمایا ہوا لفظ ’’کن‘‘ اجزائے کائنات کے لئے آج بھی حکم کا وہی درجہ رکھتا ہے جو کائنات کی ابتداء کے پہلے روز تھا۔ کائنات پھیل رہی ہے۔ کن کی صدا گونج (Echo) رہی ہے۔ کہکشاؤں کی جھرمٹ کے درمیان خلاء پھیل رہا ہے۔

سائنس کہتی ہے کہ مادہ کثیف حالت میں کُندھا ہوا تھا اور اس کا درجہ حرارت کروڑوں ڈگری (Farenheit) تھا۔ بہت پہلے کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب تھیں اور کائنات ایک نقطہ میں مرکوز تھی پھر ایک عظیم دھماکہ ہوا۔ کثیف دہکتی ہوئی اور گرم کائنات میں یکایک چکا چوند روشنی ہوئی اور یہ روشنی کائنات کے افراد بن گئی۔

’’خدا نے کہا روشنی۔۔۔اور روشنی ہو گئی۔‘‘(انجیل)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے!

’’اللہ تعالیٰ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔‘‘(سورۃ النور۔ آیت ۳۵)

سائنسدان یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز عقل سے ثابت نہ ہو وہ قابل قبول نہیں ہے۔ سائنسدان کائنات کے پھیلاؤ اور کہکشاؤں کے درمیان رفتہ رفتہ بڑھنے والے فاصلے کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن کائنات کے وجود کو ایک مربوط نظام میں تخلیق کرنے والی ہستی خالق کی پہچان کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔

کائنات ہر لمحہ حرکت اور تغیر کا نام ہے۔ ایسی حرکت جس میں ایک قاعدہ ہے۔ ایسا تغیر جس میں نظم و ضبط ہے۔ آغاز سے پہلے کوئی طاقت نہیں ہوتی تو یہ مربوط نظام کیسے قائم رہتا؟ شیر کے ہاں انسان اور انسان کے ہاں بکری پیدا ہوتی۔ گائے کے بطن سے کبوتر جنم لیتا اور امرود کے درخت سے کبھی سیب اترتے تو کبھی ناشپاتی۔

زمین اور آسمان

کائنات کا مربوط نظام ہی ہمیں بے عقلی سے عقل کی طرف لے جاتا ہے۔ اس سفر میں اعتدال، توازن اور رہنمائی نہ ہو تو عقل ذہنی عذاب بن جاتی ہے۔ 

ایسا نظر آ رہا ہے کہ دانشور ایک دن یہ راز معلوم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ کائنات کے آغاز سے پہلے کیا تھا؟

دانشور ایک روز اس حقیقت تک پہنچ جائے گا کہ کہکشانی نظام، بے شمار زمینیں اور زمینوں کے اوپر بے شمار نوعیں اور انسانی شماریات سے زیادہ نوعوں کے افراد اور کائنات کے دیگر افراد کی پلاننگ اور ڈیزائننگ کس نے کی ہے۔۔۔یہ اس لئے ہو گا۔۔۔اور یقیناً ہو گا کہ دانشور قرآن کی دعوت کو قبول کر لیں گے۔

زمین اور آسمان کی ماہیت کیا ہے؟۔۔۔

آسمان بغیر ستون کے کیسے قائم ہے؟۔۔۔

زمین کا بچھونا کس طرح بچھا ہوا ہے؟۔۔۔

زمین سخت بھی ہے، زمین نرم بھی ہے، نہ اتنی نرم ہے کہ آدمی اس کے اندر دھنس جائے، نہ اتنی سخت ہے کہ آدمی کا چلنا پھرنا محال اور مشکل ہو جائے۔ زمین کے اندر معدنیات اور نباتات کی تخلیق کس طرح ہو رہی ہے؟۔۔۔یہ مرحلہ بھی تحقیق ہو جائے گا۔ دانشور دیکھتا ہے کہ زمین ایک ہے۔ پانی ایک ہے۔ چاند کی چاندنی بھی ایک ہے لیکن یہی پانی جب زمین کے اندر سے پودوں اور درختوں کی رگوں میں دوڑتا ہے تو کہیں پھول بن جاتا ہے۔ کہیں آم بن جاتا ہے۔ کہیں انار کا روپ دھار لیتا ہے۔ دانشور علت و معلول کی پیچیدہ گتھی سلجھانے کے لئے سوچتا ہے کہ کائنات کے آغاز سے پہلے کیا تھا؟ سائنسدان تحقیق و تلاش میں سرگرداں ہے کہ

۱۔ سیاروں اور ستاروں کی پیدائش۔۔۔

۲۔ ستاروں پر زندگی کے کیمیائی اثرات۔۔۔

۳۔ کرۂ ارضی پر بلکہ بے شمار کرہ ارضی پر زندگی کا ظہور۔۔۔

۴۔ انسانی اور حیوانی تخلیق۔۔۔

۵۔ کہکشانی لہروں کا ایک دوسرے کے ساتھ ملنا اور دور کرنا۔۔۔

۶۔ تابکاری جوہری تقسیم و تحلیل کا جب وہ مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر یقین کا ایک دروازہ کھلتا ہے اور یقین کے اس دروازے سے گزر کر جب مشاہدات کی دنیائیں اس کے سامنے آتی ہیں تو وہ یہ کہنے پر خود کو مجبور سمجھتا ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ انسانی شعور بھی بالغ ہو رہا ہے۔

انشاء اللہ ایک دن یہ ہم آہنگی اسے اپنے اندر مخفی حقیقت سے آشنا کر دے گی۔ دانشور صدیوں کا سفر طے کر کے جس حقیقت تک رسائی حاصل کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اس حقیقت سے متعارف ہوتے ہیں۔

اس لئے متعارف ہیں کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرز فکر اور ان کے علوم کے حامل ہیں۔ کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں میں تفکر ان کا شعار ہے۔ تفکر سیدنا حضورﷺ کی سنت ہے۔ قرآن حکیم مختلف حوالوں سے ہمیں کائنات اور اجزائے کائنات میں تفکر کی دعوت دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔۔۔

’’ہم نے اس کا سمجھنا آسان کر دیا، ہے کوئی سمجھنے والا؟‘‘(سورۃ القمر۔ آیت ۱۷،۲۲،۳۲،۴۰)

حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے مشن کے لئے خود کو نثار کرنے والے دوستو!

جس طرح روز ازل میں اللہ تعالیٰ کی آواز سن کر، اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر، خالق اور مخلوق کے رشتے سے آشنا ہو کر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تھا۔ خالق کی پکار کا جواب دیا تھا۔ اسی طرح قرآن کی دعوت پر لبیک کہو۔ یقین سے اس بات کا عہد کرو کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں تفکر کرنا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام اور ان کے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی نسبت سے رحمت للعالمین سیدنا حضورﷺ کا قلبی اور باطنی تعارف حاصل کرنا ہے۔

غم و آلام اور مصیبتوں پریشانیوں کا شکار نوع انسانی کو بے یقینی اور شک اور وسواس کے عمیق گڑھوں سے نکال کر سکون قلب سے، راحت سے، آرام سے، خوشی سے ہمکنار کرنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ قلندر شعور اکیڈمی نے میرے عظیمی بچوں کے اندر غور و فکر اور تفکر کے پیٹرن کو ابھارنے کے لئے ورکشاپ کا انعقاد کیاہے۔ بلاشبہ قلندر شعور اکیڈمی کی انتظامیہ اس سلسلے میں مبارکباد کی مستحق ہے۔ میں اکیڈمی کی پرنسپل محترمہ زینب اشرفی صاحبہ کو اس بات کی مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی نبھایا ہے۔

ورکشاپ کے سلسلے میں محترم انعام عظیمی کی محنت اور ایثار سے مجھے خوشی حاصل ہوئی اور میں خوش ہوں کہ انہوں نے اور اکیڈمی کے دیگر اساتذہ کرام جناب نور عالم اور جناب سہیل احمد نے جانفشانی، محنت اور توجہ سے طالب علموں کے اندر علمی ذوق اور شوق پیدا کر دیا ہے۔

آپ سب عظیمی میری روحانی اولاد ہیں۔ تمام طالبات اور طلباء نے اساتذہ کرام نے، اپنے طرز عمل سے مجھے خوشی دی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ آپ سورج بن کر دھوپ کی طرح زمین کو روشن کریں۔ چاند کی چاندنی کی طرح نوع انسانی کو سکون پہنچائیں۔ آسمان پر چمکتے ستارے بن جائیں۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کا نگہبان ہو، آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر ڈھانپے رکھے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو اور حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی نسبت آپ کے اوپر محیط ہو اور رسول اللہﷺ آپ سے راضی ہوں۔ (آمین)

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔