Topics

نیند اور بیداری

روح شناسی سے منکشف ہوتا ہے کہ دو صورتیں ایسی ہیں جس کا تجربہ لازمی طور پر ہر انسان کو حاصل ہے۔ ایک تجربہ جو زندگی کے ہر دوسرے قدم پر اسے حاصل ہے وہ سونے کی حالت یعنی نیند ہے۔ انسانی زندگی دو رخوں میں سفر کرتی ہے ایک بیداری اور دوسرا رخ نیند ہے۔

جس طرح انسان سونے پر مجبور ہے اسی طرح بیداری بھی اس کی مجبوری ہے۔ وہ ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا۔ زندگی کا سفر ان ہی دو حالتوں میں جاری ہے۔ بیداری کی حالت میں کوئی آدمی اپنی زندگی کے سارے تقاضے اور ساری حرکات و سکنات، واردات و کیفیات، توہمات، خیالات، تصورات، احساسات کا رشتہ گوشت پوست کے جسم سے قائم کرتا ہے اور ان سب کو گوشت پوست کے جسم کے تابع تصور کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس سونے کی حالت میں اس کا رشتہ گوشت پوست کے جسم سے غیر شعوری رہ جاتا ہے۔

گہری نیند میں اس کا ذہنی ربط اور تعلق جسم انسانی سے وہ نہیں رہتا جو بیداری میں ہوتا ہے لیکن وہ زندہ رہتا ہے۔ سانس کی آمد و شد برقرار رہتی ہے۔ دوسرے تجربے میں جو انسان پر وارد ہوتی ہے وہ موت ہے جب تک جسم سے روح کا تعلق رہتا ہے جسمانی حرکات و سکنات قائم رہتی ہیں اور جب یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جسمانی حرکات و سکنات ختم ہو جاتی ہیں۔

جسمِ مثالی

زندگی کے سارے تقاضے دراصل روح میں موجود ہیں اور روح سے شعور میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے تمام تقاضوں کے مادی خدوخال میں مظاہرے کیلئے روح اپنا ایک میڈیم (Medium) بناتی ہے۔ اس میڈیم کی مادی بنیاد اور ابتدائی حالت کو ہم کروموسوم کا نام دے سکتے ہیں۔ 

قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ:

’’ہم نے اس میں اپنی روح ڈال دی۔‘‘(سورۃ ص۔ آیت ۷۲)

یعنی روح نے اپنے لئے ایک میڈیم بنا لیا اور اس میڈیم کو حواس منتقل کر کے متحرک کر دیا۔ روح مادی جسم کو ایک ایجنسی کے ذریعے حواس منتقل کرتی ہے۔ اس ایجنسی کو جسم مثالی کہتے ہیں۔ روح جو اطلاعات جسم کو دینا چاہتی ہے وہ اطلاعات اور تقاضے جسم مثالی وصول کرتا ہے اور ان تقاضوں کے اثرات گوشت پوست کے جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔

جسم مثالی انسان کے مادی جسم کے اوپر روشنیوں سے بنے ہوئے ایک لطیف جسم کی صورت میں ہوتا ہے۔ روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم صرف انسان کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی مخلوق موجود ہے سب اس ہی طرح روشنیوں سے بنے ہوئے جسم کی ذیلی تخلیق ہیں۔

اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ انسانی زندگی میں جتنے تقاضے موجود ہیں یہ تقاضے گوشت پوست اور 

رگ پٹھوں سے مرکب جسم میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ روح ان کی اطلاع جسم مثالی کو دیتی ہے، وہاں سے منتقل ہو کر یہ اطلاع گوشت پوست کے جسم پر ظاہر ہوتی ہے۔

اگر کوئی آدمی روٹی کھاتا ہے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ گوشت پوست کا آدمی روٹی کھا رہا ہے لیکن فی الحقیقت جب تک جسم مثالی کے اندر بھوک کا تقاضہ پیدا نہیں ہو گا اور جسم مثالی گوشت پوست کے جسم کو بھوک کا عکس منتقل نہیں کرے گا آدمی روٹی نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آئے۔ ذرا سے تفکر سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ 

گیارہ ہزار صلاحیتیں

محدودیت میں بند لامحدود روحانی آنکھ دیکھتی ہے کہ انسان کے اندر گیارہ ہزار صلاحیتیں کام کرتی ہیں اور ہر صلاحیت ایک علم ہے اور یہ علم شاخ در شاخ لامحدود دائروں میں پھیل جاتا ہے۔ ان گیارہ ہزار بنیادی صلاحیتوں کے استعمال کے لئے یقین کا ہونا بہت ضروری ہے اور یقین کا مطلب یہ ہے کہ یقین کا شعور حاصل ہو۔

روح کا ایک پرت ایسا ہے جو انسان کو شک وسوسوں اور بے یقینی سے دور کرتا ہے اور انسان کے اندر ان صلاحیتوں کو مستحکم کرتا ہے جو یقین کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر کسی انسان کی مرکزیت اعلیٰ حواس کی طرف ہے تو اس پر یقین کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جیسے جیسے یقین مستحکم ہوتا ہے غیب کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ جب آدمی غیب کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اندر یقین کا وہ پیٹرن (Pattern) کھل جاتا ہے جو جانتا ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کے جسم کی حیثیت عارضی اور فانی ہے۔

اس پر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ مرنے والے آدمی کے جسم کے اوپر جو روشنیوں کا جسم ہے اس نے عارضی اور فنا ہو جانے والے مادی جسم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے یعنی مرنے سے مراد یہ ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کے آدمی کے اوپر موجود روشنیوں کا وہ جسم جو کہ روح اور مادی جسم کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے اس عالم آب و گل سے رشتہ منقطع کر کے عالم رنگ و نور میں منتقل ہو گیا ہے۔

عالم رنگ و نور اور غیب کے پس پردہ دیگر بے شمار عالمین سے واقف ہونے کے لئے اور اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کا استعمال سیکھنے کے لئے انبیاء کی طرز فکر اور ان کے علوم کے حامل ایسے روحانی استاد کی ضرورت ہے جو قدم قدم چلا کر شاگرد کو عرفان ذات سے ہمکنار کر دے۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔