Topics
ہم سمجھتے یہ ہیں کہ باہر دیکھ رہے ہیں حالانکہ ہم باہر نہیں اندر دیکھ رہے ہیں۔ ہم کرسی کو کرسی اس وقت کہتے ہیں جبکہ کرسی کا علم کرسی کے عکس کی صورت میں ہمارے دماغ میں منتقل ہو۔ اگر کرسی ہمارے سامنے نہیں ہے تو ہم کرسی کو نہیں دیکھتے۔ ہم کسی چیز کو دیکھ کر اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز ہے۔ اگر چیز سامنے نہ ہو اور ہمارا ذہن اس سے باخبر نہ ہو ہم اس چیز کے تذکرہ سے قاصر ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ اپنے دماغ کی سطح پر دیکھتے ہیں یا اپنے اندر دیکھتے ہیں تو پھر یہ کہنا کہ ہم باہر دیکھ رہے ہیں مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ مفروضہ آدم کی اولاد کو جبلی طور پر اسلاف سے منتقل ہوا ہے۔
ابھی بچہ شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھتا کہ اس کے اطراف کا ماحول اسے مسلسل یہ اطلاع قبول کرنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ ہم باہر دیکھ رہے ہیں۔ بچے کو جب چاند سے روشناس کرایا جاتا ہے تو یہ بات بتائی جاتی ہے کہ چندا ماموں آسمان پر ہیں۔ ساتھ ہی ماں یا خاندان کا کوئی قریبی فرد انگلی کے اشارے سے بچے کو یہ بات ذہن نشین کرا دیتا ہے کہ چاند ہم سے بہت دور نظر آتا ہے۔
جب ہم دوری کا تذکرہ کرتے ہیں تو فاصلہ اور وقت کا علم وجود میں آ جاتا ہے اور یہ علم ہماری زندگی میں پیوست اور نقش ہو جاتا ہے۔
ہم وقت کے بغیر کسی چیز کا تذکرہ نہیں کر سکتے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بچہ اتنے سال کا ہے یا بچے کی اتنی عمر ہے تو فی الواقع یہ کہتے ہیں کہ یہ بچہ اتنی مدت گزار چکا ہے۔ جوانی کے تذکرہ میں بھی یہ بات مخفی ہے کہ بچہ سولہ یا اٹھارہ سالوں کا عرصہ گزار چکا ہے۔ اسی طرح ادھیڑ عمر کا ذکر بھی اس بات کی نشاندہی ہے کہ یہ شخص تیس، چالیس سالوں سے گزرے ہوئے وقفہ کی تصویر ہے۔ یہی صورت بڑھاپے کی ہے جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں آدمی بوڑھا ہو گیا تو دراصل ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی نے ساٹھ سال یا اس سے زیادہ وقفہ گزار لیا ہے۔
ہم آم کے درخت کا تذکرہ اس کے وقت گزارنے کے عمل کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جس وقت آم کے درخت کو آم کہا جاتا ہے تو پہلے ہمارا ذہن اس درخت کے ساتھ چپکے ہوئے وقت کو ناپتا ہے۔ جب ہم کسی درخت کے بیج کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے ذہن میں ہوتی ہے کہ یہ بیج کسی وقت زمین میں بویا گیا ہو گا پھر اس بیج کا درخت بنا ہو گا۔ اور پھر اس درخت نے نشوونما میں ایک عرصہ یا زمانہ گزارا اور اس بیج کا ظہور ہوا۔
ایک بیج کو بیان کرنے میں یا دیکھنے کے لئے ہمیں کم و بیش مہینوں اور بعض مرتبہ سالوں کے وقت سے گزرنا پڑتا ہے وقت کے محیط ہوئے بغیر ہم کسی بھی حالت میں بیج کو آم نہیں کہہ سکتے علیٰ ہذالقیاس یہی حال کائنات میں موجود ہر شئے کا ہے۔
اب یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ ہم کسی چیز کو بغیر علم یا بغیر اطلاع کے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا تذکرہ کر سکتے ہیں یعنی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں جو کچھ سمجھ رہے ہیں۔ یا جس چیز کا تذکرہ کر رہے ہیں اس کی حیثیت صرف اطلاع ہے۔
اطلاع کہاں سے آتی ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اطلاع ہمیں کہاں سے ملتی ہے اور اس اطلاع کا مخزن کیا ہے؟
کوئی بھی اطلاع یا کسی بھی شئے کا علم یا وقت ہمیں لازمانیت سے موصول ہوتا ہے اور یہ ہی لازمانیت نت نئی اطلاعیں زمانیت (وقت) کے اندر ارسال کرتی رہتی ہیں۔ لازمانیت موجودات یا کائنات کی بیس(Base) ہے۔ اگر ہم لازمانیت کو ایک نقطہ سے تشبیہہ دیں تو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ نقطہ میں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے۔ لہروں کے ذریعہ اس نقطہ سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا ہے تو انسان کے حافظہ سے ٹکراتا اور بکھرتا ہے، بکھرتے ہی ہر لہر مختلف شکلوں اور صورتوں میں ہنستی بولتی، چلتی پھرتی، گاتی بجاتی، تصویر بن جاتی ہے لیکن چونکہ انسان کا حافظہ جبلی طور پر (فطری نہیں) محدود ہے۔ اس لئے حافظہ ایک دائرہ کے اندر محدود ہونے کی وجہ سے تصویر کے مابین فاصلہ بن جاتا ہے یہی فاصلہ ہمیں کسی چیز کو خود سے دور دکھاتا ہے لیکن ہمارا دیکھنا (Fiction) یا مفروضہ ہے۔ اگر ہم اس بیس(Base) یا نقطہ کو تلاش کر لیں جہاں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے تو فاصلہ معدوم ہو جاتا ہے۔
ٹرانزسٹر یا ریڈیو جن ذرات سے مرکب ہے۔ اس کو بھی وقت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چونکہ لازمانیت سے آئی ہوئی ہر اطلاع وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہے۔ اس لئے ہر وہ ذرہ جو زمین پر موجود ہے۔ ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس میں انحطاط بھی ہو رہا ہے۔ انحطاط کا مطلب یہ ہے کہ ذرہ جہاں سے آیا تھا وہاں جانے کے لئے بے قرار رہتے ہوئے خود کو وقت کے دائرے سے آہستہ آہستہ دور کر رہا ہے اور اپنے مخزن کی طرف لوٹ رہا ہے جیسے جیسے زمانیت سے بُعد (دوری) واقع ہوتا ہے اسی مناسبت سے لازمانیت کے دائرے سے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں ٹرانزسٹر میں کام کرنے والے ذرات وقت کے دائرہ سے اتنی دور ہو جاتے ہیں کہ لازمانیت کی تحریکات قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کا ذرہ ہزاروں میل دور کی آواز پکڑ (Catch) لیتا ہے اور نشر کر دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی انسان قریب یا بعید کی آواز سن کر دوسروں کو سنا دیتا ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ ٹرانزسٹر کے ان ذرات کو اس مقام تک پہنچانے میں انسان نے اپنی لازمانی صلاحیتیں استعمال کی ہیں اور ان صلاحیتوں کا ثمر یہ ہے کہ آج آواز کی دنیا میں پردے حائل نہیں ہیں۔ جب انسان اپنی توانائیوں کو بروئے کار لا کر ذرات سے کام لے سکتا ہے تو پھر یہ کیوں ممکن نہیں کہ وہ ذرات سے کام لینے والی صلاحیتوں کو اپنے حق میں استعمال کر کے براہ راست اس سے مستفیض ہو۔ لیکن نوع انسانی کی تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی کہ جن صلاحیتوں کو وہ استعمال کر کے ایک ذرہ یا ایک ایٹم سے ناقابل تصور کام لے سکتا ہے تو اپنی باطنی صلاحیت سے براہ راست وسائل کے بغیر کام کیوں نہیں لیتا۔ یہ انسان کی جبلی اور اسلاف سے ملی ہوئی جہالت ہے جس نے پوری نوع انسانی کو مجبور کر کے وسائل کا پابند کیا ہوا ہے۔
نیند اور شعور
یہ بات ہر فرد کے علم میں ہے کہ انسان پیدائش کے وقت شعور رکھتا ہے گو وہ شعور بالغ شعور سے مختلف ہے۔ بچپن میں بچے کے اوپر بیداری سے زیادہ نیند کا غلبہ رہتا ہے اور بچہ نیند کی حالت میں کبھی ہنستا ہے۔ اور کبھی منہ بنا کر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز دیکھ رہا ہے جو اس کے لئے ناگوار ہے۔ آہستہ آہستہ اس کے ذہن پر وہ تمام نقوش منتقل ہوتے رہتے ہیں جو اس کے ماحول میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچہ وہی زبان سیکھتا ہے جو اس کے ماحول میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ زبان کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں یہ بات بھی منتقل ہوتی رہتی ہے کہ آواز کے سننے میں قرب و بُعد (قریب و دور) کا تعلق ہے۔ قریب سنانے کے لئے آواز آہستہ بولی جاتی ہے اور دور سنانے کے لئے آواز اونچی بولی جاتی ہے۔ دوری اور قریب کا یہ طریقہ کار بچے کے اندر وقت کی پابندی پیدا کر دیتا ہے اور یہ طریقہ کار وقت کو اتنا پھیلا دیتا ہے کہ انسان کی ہر حس اور صلاحیت اس کے اندر قید ہو جاتی ہے اور جیسے جیسے بچہ یا انسان اس قید کی زندگی میں عمر گزارتا ہے اسی مناسبت سے وہ لازمانیت سے دور ہو جاتا ہے۔
قانون
نوع انسان میں باشعور اور باصلاحیت افراد اپنی صلاحیتوں کو بالواسطہ کارآمد بنانے کے بجائے براہ راست استعمال کریں تو انسان مکانیت کی گرفت سے آزاد ہو کر لازمانی صلاحیتوں سے آشنا ہو سکتا ہے۔
سائنسدان اس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں کہ اگر وہ الٰہی قوانین کو سمجھ لیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے فیض یاب ہو جائیں گے۔ اور ان کے اوپر سے مقید، مضطرب اور مغموم زندگی کا چولا اتر جائے گا اور ان قوانین کے سمجھنے کا آخری اور یقینی ذریعہ قرآن کریم ہے۔
انسان کو اس مرحلے تک پہنچنا ہے اس لئے کہ جب تک یہ مرحلہ طے نہیں ہو جائے گا۔ قیامت نہیں آئے گی اور قیامت کا آنا اس لئے ضروری ہے کہ ذرہ، انسان یا کائنات مخزن اور مرکز کی طرف لوٹ جانے پر مجبور ہے۔ اس دور کے انسان خوش نصیب ہو سکتے ہیں، اگر وہ اپنے اصل مقام تک پہنچ جانے کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں۔
لازمانیت اور زمانیت
لازمانیت میں وقت کی موجودگی نہیں ہے۔ وقت کا تانا بانا صرف زمانیت میں ہے۔ انسان اگر وقت کی حیثیت سمجھ کر وقت کی نفی کر دے تو لاریب لازمانیت میں قدم رکھ دیتا ہے اور جیسے ہی لازمانیت میں قدم مستحکم ہو جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ بندھی ہوئی ہر تخلیق اس کے لئے مسخر ہو جاتی ہے۔
مثال
الیکٹرک اسٹیشن میں موجود جنریٹر کو ایک انسان نہ صرف جانتا ہے بلکہ وہ اس پر دسترس رکھتے ہوئے اس کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔
اس کے لئے اربوں کھربوں بلب (قمقموں) کی روشنی، دیوہیکل کپڑا بننے والی مشین، ریڈیو، ٹی وی غرض یہ کہ اس جنریٹر سے فیڈ ہونے والی ہر شئے اس کے تابع ہے وہ جب چاہے جنریٹر سے متعلق حرکت کو روک دے اور جب چاہے اسے چلا دے۔
وقت۔۔۔؟
حقیقت یہ ہے کہ جنریٹر کی طرح لازمانیت بھی ایک نقطہ ہے اس نقطہ میں پوری کائنات موجود ہے اور یہ کائنات روشنی یا لہروں یا تاروں کے ذریعے متحرک رہتی ہے۔ کائنات کے نقوش ایک جگہ ہیں مگر حرکت میں آنے کے بعد جب ان سے تار باندھے گئے تو یہ نقوش الگ ہو گئے اور یہ الگ الگ ہونا وقت ہے۔ وقت کی اس کارفرمائی نے انسان کو لاوقت (لازمانیت) سے دور پھینک دیا ہے۔ چونکہ ہم بنیادی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ہر چیز الگ ہے اور ہر چیز کے درمیان فاصلہ ہے اس لئے ہم لازمانیت کا علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جبکہ ہم کسی بھی حال میں لازمانیت سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتے۔
قانون یہ ہے کہ صلاحیتیں کروٹیں بدلتی رہتی ہیں اور ہم اس صلاحیت کو دانستہ نادانستہ برابر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ہوائی جہاز انسان نے بنایا۔ ہوائی جہاز یعنی رفتار کی تیزی انسان کے دماغ کی اختراع ہے مگر انسان خود مجبور ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی صلاحیت کو ہوائی جہاز کے ساتھ قید کر لیا ہے۔
انسانی صلاحیت کا کتنا بڑا شاہکار ہے کہ اس نے ایٹم دریافت کیا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا کہ انسان نے ایٹم یا ایک ذرہ کو لاکھوں انسانوں پر فضیلت بخش دی ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ نوع انسان کے ایک یا چند افراد نے اپنی ذہنی اور لافانی صلاحیتیں اس بات میں صرف کی ہیں کہ اس نے ایک ذرہ کو کئی لاکھ انسانوں پر نہ صرف فضیلت دے دی بلکہ لاکھوں انسانوں کی موت اس ذرہ کے اندر ذخیرہ کر دی ہے۔
نوع انسان پر اس سے ز یادہ اور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ اس کی نوع کے افراد پوری نوع کی قیمت گھٹا کر نوع کے مقابلے میں ذرہ کی قیمت بڑھا رہے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ جب ذہن انسانی ایک ذرہ سے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا کام لے سکتا ہے تو وہ کیوں اس صلاحیت سے براہ راست پوری نوع کو ابدی زندگی سے روشناس نہیں کر سکتا؟
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔