Topics

ذات کا عرفان

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا ہے کہ

زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں Independent (غیر جانبدار) زندگی گزارنا اور Dependent(جانبدار) زندگی گزارنا۔

جب آپ کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ میری عمر کتنی ہے دو سال ہے۔ دس سال ہے۔ اسّی سال ہے۔ نوے سال ہے۔ سو سال ہے تو حساب کتاب کیسا؟

اللہ تعالیٰ نے جب دنیا میں بھیج دیا  آ گئے۔

بلا لیا، چلے گئے۔

Independentزندگی اور Dependentزندگی یہ زندگی کے دو رخ ہیں۔ اگر آدمی Independentزندگی گزارے گا تو وہ زیادہ دنیا دار ہو جائے گا۔ اللہ رسیدہ بندے Dependentزندگی گزارتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ تک رسائی اور عرفان حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی روح سے واقف ہوں ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا۔

اگر اس دنیا کے بعد دوسری دنیاؤں میں داخل ہونا ہے تو روحانی استاد کی راہنمائی میں پیش قدمی کریں۔ خود کو مرشد کی ذات سے وابستہ کر دیں۔ مرشد پہ خود کو نثار کر دیں۔

روحانیت کا اصل اصول یہ ہے کہ جب تک مرید مرشد کی ذات میں فنا نہیں ہو گا۔ مرشد کی طرز فکر اس کے اندر منتقل نہیں ہو گی۔ اس لئے کہ مرشد کی طرز فکر دودھ اور گلاب کی طرح ہے۔ دودھ اور گلاب کا ذخیرہ کرنے کیلئے ظرف چاہئے۔ مرشد کی ذات ایک مخصوص Patternہے۔ مرید کے اندر پہلے سے ایک پیٹرن بنا ہوا ہے۔

پیالہ پہلے سے بھرا ہوا ہے۔ جس پیالہ میں کثافت گندگی، کیچڑ بھرا ہوا ہے اس میں آپ گلاب کیسے ڈال سکتے ہیں۔ بغیر منجھے ہوئے پیالے میں آپ دودھ کیسے انڈیل سکتے ہیں؟

ضروری ہے کہ پہلے پیالے کو خالی کیا جائے پھر اس پیالے کو مانجھ کر صاف کیا جائے۔ قلعی کیا جائے اور اس کے بعد اس میں دودھ یا گلاب ڈال سکتے ہیں۔

روحانی شاگرد

مرشد کریم نے فرمایا ہے۔۔۔

روحانیت سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ طالب علم قرآن کریم کو سمجھتا ہو اور شاگرد تزکیہ نفس کو جانتا ہو۔ روحانیت کے اوپر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ شاگرد ایسے شخص کی شاگردی اختیار کرے جو روحانی علوم پر دسترس رکھتا ہو اور منزل رسیدہ ہو۔

عرش، کرسی، حجاب عظمت، حجاب کبریا، حجاب محمود، سدرۃ المنتہیٰ اور بیت المعمور کیا ہیں؟

بے شمار کہکشانی نظام کن فارمولوں پر قائم ہیں؟

بے شمار دنیائیں کہاں واقع ہیں؟

بے شمار سورج ہیں۔

چاند اتنے ہیں کہ جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے۔

ہر سیارے میں انسان اور دوسرے مخلوق آباد ہے۔

مخلوق کہیں ٹرانسپیرنٹ ہے۔ کہیں ٹھوس مادہ سے تخلیق ہوئی ہے۔

کہیں قد کاٹھ میں بہت بڑی ہے۔

کسی سیارے پر بہت چھوٹی ہے۔

روحانیت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق اس طرح قائم ہو جائے کہ آپ کی سوچ اپنی نہ رہے۔ آپ کی سوچ اللہ تعالیٰ کی سوچ ہو جائے۔ بندہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تلاش کرے۔

ذات کی نفی

جن لوگوں کے اندر الٰہی صفات منتقل ہو جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کی طرز فکر ان کے اندر مستحکم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ذات کی نفی کر دیتے ہیں۔

’’وہ کہتے ہیں ہم نے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شئے مستقل نہیں ہے ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر خیال آ رہا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بھوک لگ رہی ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اگر پیاس لگ رہی ہے تو پیاس کا تقاضا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انسان کے اندر حرکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وریدوں شریانوں میں اگر خون دور کر رہا ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ اگر وریدوں میں شریانوں میں خون بہنا بند ہو جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ دنیا کی کوئی مشین، کوئی طاقت مردہ جسم کی وریدوں میں شریانوں میں خون نہیں دوڑا سکتی۔ انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انسان کی موت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘

انسان کو یہ علم نہیں ہے کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے؟ انسان یہ بھی نہیں جانتا کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دھکیلتی ہے۔

وہ کیسے چلتا ہے، حرکت کرتا ہے، سوچتا ہے، کہاں سے سوچتا ہے؟ سوچنا کیا ہے؟ کہاں سے اسے فیڈنگ Feedingمل رہی ہے؟ کون سی برقی رو ہے جس برقی رو کی بنیاد پر وہ دوڑ رہا ہے، چل رہا ہے، سو رہا ہے، جاگ رہا ہے۔ شادی کر رہا ہے، بچے پیدا کر رہا ہے اور جب برقی رو رشتہ توڑ لیتی ہے تو وہ فنائیت کے درجہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر نہ بھوک لگتی ہے، نہ پیاس لگتی ہے، نہ اس کے اندر کوئی تقاضا ابھرتا ہے۔

کوئی انسان مرنا تو بعد کی بات ہے، مرنے کا تصور بھی پسند نہیں کرتا، کوئی انسان بیمار ہونا نہیں چاہتا۔ اگر انسان کا بس چلتا وہ کبھی لاغر نہ ہوتا۔ بوڑھا نہ ہوتا۔ کسی انسان کا بچہ مرتا اور نہ کسی انسان کی ماں کا انتقال ہوتا۔ کوئی غریب نہیں ہوتا، کوئی معذور نہیں ہوتا، کوئی نابینا نہیں ہوتا، مفلوک الحال نہیں ہوتا۔ پیدائش پر اختیار ہوتا تو ہر شخص بادشاہ کے گھر پیدا ہوتا۔

پانچ کھرب بائیس کروڑ!

ہم اپنی زندگی کا تجزیہ کریں تو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق کوئی آدمی اپنی زندگی کے کسی ایک عمل میں خود مختار نہیں ہے۔ اس لئے کہ خیال آئے گا تو ہم کام کریں گے۔ وہ خیال شیطانی طرز فکر سے متعلق ہو یا رحمانی طرز فکر سے متعلق ہو۔ اس محفل میں ماشاء اللہ سب پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلسل ۳۵ سال کی جدوجہد اور کوشش سے اب ذہن اتنے کھل گئے ہیں کہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔

۷۰ سال کی زندگی کا اگر حساب لگایا جائے تو گھنٹے، منٹ اور لمحات کتنے بنتے ہیں؟ وہ ایک کھرب تیس کروڑ سے زیادہ ہیں اور خیالات کی آمد تقریباً پانچ کھرب بائیس کروڑ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان نے ستر سال میں کھربوں عمل کئے۔ کھربوں فیصلے لئے۔ آپ کوئی ایک عمل ایسا بتائیں جو خیال آئے بغیر آپ نے کیا ہو۔ کوئی ایک بات بھی آپ بیان نہیں کر سکتے۔ لاریب انسان مجبور ہے۔ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اسے Feedکر دیا جاتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے زندگی کے دو رخ بتائے ہیں۔ ایک Independentہونا یعنی اپنی انا کے خول میں بند ہو کر زندگی گزارنا جس میں اقتدار کی خواہش، اپنے آپ کو منوانا، ضد کرنا، بحث کرنا، فساد برپا کرنا شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہاتھ دیئے ہیں۔ ہم ہاتھ کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ خیال آتا ہے۔ خیال کے اندر ایک میکانکی حرکت ہوتی ہے۔ ہر مخلوق کے اندر ایک میکنزم (Mechanism) کام کر رہا ہے۔ انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کے اندر اچھائی اور برائی کا تصور منتقل کر دیا ہے۔

اچھائی برائی کا مطلب ہے کہ اس عمل میں جو عمل آپ آسمان سے آئے ہوئے خیال کے تحت کر رہے ہیں، آپ اس میں کیا معنی پہناتے ہیں۔ ایک آدمی اصلاح احوال کے لئے کسی آدمی کے تھپڑ مارتا ہے۔ یہ خیر ہے۔ دوسرا آدمی نفرت و حقارت کے تحت تھپڑ مارتا ہے۔ یہ شر ہے۔ تھپڑ مارنے کا عمل ایک ہے لیکن فیصلہ نیت پر ہوتا ہے۔

زندگی حرکت ہے۔ حرکت کے ساتھ آدمی چل پھر رہا ہے، دوڑ رہا ہے، کاروبار کر رہا ہے، شادی کر رہا ہے۔ نئی نئی ایجادات کر رہا ہے لیکن ابھی تک یہ بات طے نہیں ہوئی کہ زندگی کیا ہے؟

زندگی صرف اللہ تعالیٰ کا چاہنا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ میرے لئے آپ کے لئے زید کے لئے بکر کے لئے چاہتے ہیں کہ جسم میں حرکت رہے، ہم سب زندہ ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ ہم زندہ رہیں، ہمارے اندر کا عمل ختم ہو جاتا ہے، کتنی دنیا پیدا ہوئی اور مر گئی۔ جس قدر دنیا موجود ہے یہ بھی مر جائے گی۔ بعد میں کتنی دنیا پیدا ہو گی وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔

زندگی کا تجزیہ

تصوف کے راستے پر چلنے والے لوگوں کے لئے عظیمی بہن بھائیوں کے لئے اور وہ لوگ جو خود شناسی کے ساتھ ساتھ خدا شناس ہونا چاہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اپنی زندگی کا تجزیہ کریں۔ اپنے اندر تلاش کریں گے تو علم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے علاوہ یہاں کچھ نہیں ہے۔

جب اللہ تعالیٰ کا چاہنا ہی زندگی ہے تو اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا روحانیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود کو وابستہ کرنا اللہ تعالیٰ کا عرفان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر غور کرنا، اللہ تعالیٰ کے علوم سیکھنا اور اللہ تعالیٰ کے اوصاف کو تلاش کرنا، اپنے اندر، زمین کے اوپر، زمین کے اندر، آسمانوں میں، کہکشانی نظاموں میں تفکر کرنا، روحانیت ہے۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔