Topics

سلطان

دنیا عجائبات کی دنیا ہے، زمین میں درخت اگتے ہیں۔ باغات ہیں، پہاڑ ہیں، نخلستان ہیں، نباتات ہیں، پھول ہیں، پھولوں کا رس چوسنے والی شہد کی مکھیاں ہیں، تتلیاں ہیں، پرندے ہیں، حشرات الارض ہیں، چوپائے ہیں، کھیتیاں ہیں، کھیتیاں پکانے والا سورج ہے، پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے والی چاندنی ہے، پانی ہے، ہوا ہے، سمندر ہے، سمندر کی مخلوق ہے، دریا ہیں، نہریں ہیں، تالاب ہیں، زمین کو روشن کرنے والا قندیل چاند ہے، بروج ہیں، ستارے ہیں، سیارے ہیں، کہکشانی نظام ہیں، فرشتے ہیں، جنات ہیں اور انسان ہیں۔

غور کرنے سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ آگ، ہوا، مٹی اور پانی سے نئی نئی مخلوقات پیدا ہو رہی ہیں۔ مٹی سے اللہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں۔ جتنی بھی مخلوقات ہیں ان میں زندگی کا ایک اہم عنصر پانی ہے۔

بے شمار مخلوقات زمین پر موجود ہیں۔ ہر نوع الگ الگ شکل و صورت ہونے کے باوجود اعمال و حرکات، نشوونما اور زندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے آپس میں اشتراک رکھتی ہے۔ دو پیروں سے چلنے والا آدمی، چار پیروں سے چلنے والے چوپائے، دوپیروں سے چلنے والے پرندے، ایک پیر پر کھڑے ہونے والی مخلوق (درخت) رینگنے والے حشرات الارض، خوردبین سے نظر آنے والی اور نظر نہ آنے والی مخلوق زمین پر موجود ہیں۔ ہر مخلوق الگ نوع ہے۔ اور ہر نوع ایک مخلوق ہے۔ جسمانی اعتبار سے، صورت کے اعتبار سے، چلنے، اڑنے اور رینگنے کے اعتبار سے ہرمخلوق اپنی ایک حیثیت رکھتی ہے۔

کائنات میں ہر نوع اور نوع کا ہر فرد زندگی گزارنے کے لئے دو رخوں کا محتاج ہے۔ ایک رخ مادی ہے اور دوسرا رخ اس مادی وجود کی حفاظت کرنے والا سلطان ہے۔

’’اے گروہ جنات و انسان! اگر تم طاقت رکھتے ہو یہ کہ نکل جاؤ آسمان اور زمین کے کناروں سے۔۔۔تو نکل جاؤ۔۔۔تم نہیں نکل سکتے ،مگر سلطان سے۔‘‘(سورۃ الرحمٰن۔ آیت ۳۳)

زمین پر موجود مخلوق ہمیں نظر آتی ہے لیکن سلطان ہمیں نظر نہیں آتا۔ ہر شخص اس بات سے واقف ہے اور اس کے تجربے میں ہے کہ ظاہر وجود کی حرکات و سکنات سلطان کے تابع ہیں۔ ہر مخلوق دو رخوں پر قائم ہے۔

دو رخوں سے مراد ہے کہ ایک رخ جسمانی اعضاء ہیں اور دوسرا چھپا ہوا رخ جسمانی اعضاء کو سنبھالنے والا رخ ہے۔ جس کو مذہب نے سلطان کا نام دیا ہے۔ جب تک جسمانی اعضاء میں حرکت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سلطان نے جسم کو سنبھالا ہوا ہے یا جسمانی حرکات اعمال اور افعال سلطان کے تابع ہیں۔ جسمانی وجود میں ہر قسم کی حرکات و سکنات سونا، جاگنا، کھانا، پینا، سانس لینا، غور و فکر کرنا، خوش یا غمگین ہونا، تقاضے پورا کرنا اس وقت ممکن ہے جب جسم میں سلطان موجود ہو اور سلطان جب اس جسم سے رشتہ توڑ لیتا ہے تو مادی وجود کی حرکات و سکنات ختم ہو جاتی ہیں اور نتیجہ میں جسمانی اعضاء ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور بکھرنے کے بعد جب مزید شکست و ریخت ہوتی ہے تو مٹی کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔

زندگی میں خیالات بنیاد ہیں۔ خیالات کا آنا بند ہو جائے تو آدمی مر جاتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان ہو، حیوان ہو یا کوئی بھی مخلوق ہو، جسمانی اعضاء موجود ہونے کے باوجود ان کے اندر حرکت نہیں ہوتی۔ آدمی جب زندہ ہوتا ہے یا کوئی بھی مخلوق زندہ ہوتی ہے جسمانی اعضاء ہر عمل سے متاثر ہوتے ہیں۔

مثلاً پیر کے انگوٹھے میں سوئی چبھوئی جائے ایک منٹ کے ہزارویں حصے میں دماغ اس بات کو محسوس کر لیتا ہے کہ پیر میں کوئی چیز چبھی ہے۔ کسی آدمی سے ناگوار بات کی جائے تو اس کا دماغ متاثر ہوتا ہے اور چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔

آدمی کو بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے، گرمی، سردی کا احساس ہوتا ہے، کوئی بات ناگوار گزرتی ہے اور کسی بات سے وہ خوش ہو جاتا ہے۔ ردعمل کے طور پر اس کی حرکات و سکنات خوش گوار اور ناگوار عمل میں محسوس ہوتی ہیں اس کے برعکس مردہ جسم میں کوئی ردعمل نہیں ہوتا۔

کیوں رد عمل نہیں ہوتا؟

اس لئے رد عمل نہیں ہوتا کہ رد کرنے یا قبول کرنیوالی ایجنسی (Agency) جو انسان اور دوسری مخلوقات کو متحرک کئے ہوئے ہے۔ وہ مادی زندگی سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے۔

مثال

ایک سرجن دل کا آپریشن کرتا ہے، دوسرا سرجن دماغ کا آپریشن کرتا ہے، تیسرا معالج بیماریوں کا علاج کرتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب آدمی زندہ ہو اور جسم کو سلطان نا صرف یہ کہ سنبھالے رکھے بلکہ اس کی حفاظت بھی کرے۔ 

کتاب لوح و قلم میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا ہے

’’اگر ہمیں کسی چیز کا خیال آتا ہے تو وہ چیز ہمارے لے موجود ہے اور اگر ہمیں اپنے اندر سے کسی چیز کے بارے میں اطلاع نہیں ملتی یا کسی چیز کے بارے میں خیال نہیں آتا تو وہ چیز ہمارے لئے موجود نہیں۔‘‘

ایک فرد واحد بھی خیال آئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا اگر کوئی شخص مصور ہے تو مصور بننے سے پہلے لازماً اس کے دماغ میں یہ خیال بار بار آتا ہے کہ مجھے تصویر بنانی ہے۔دنیا میں بے شمار شعبے ہیں مثلاً درزی کا شعبہ ہے، برتن بنانے کا شعبہ ہے، ہوائی جہاز بنانے کا شعبہ ہے، موبائل، سیٹلائٹ کا شعبہ ہے۔ جتنے بھی شعبے ہیں وہ اس وقت تک قائم ہیں جب تک ان شعبوں کی اطلاع کوئی فرد قبول کرتا ہے۔ خیال آئے بغیر انسان یا حیوان کوئی عمل نہیں کر سکتا جس طرح انسانوں کو پیاس لگتی ہے۔ پیاس لگنے سے مراد یہ ہے کہ جسمانی اعضاء سیراب ہونا چاہتے ہیں تو انسان پانی کی طرف دوڑتا ہے اور یہ عمل صرف انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے زمین پر موجود مخلوق میں مشترک ہے۔

انسان کو بھوک لگتی ہے یعنی مخلوق بشمول انسان کے اندر یہ تقاضا پیدا ہوتا ہے کہ کچھ کھانا ہے، کچھ پینا ہے تا کہ زندگی رواں دواں رہے۔ جتنے بھی انسانی یا حیوانی تقاضے ہیں وہ سب زمین پر مخلوق میں موجود اور متحرک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مادی وجود ذاتی کوئی حرکت نہیں رکھتا۔ خیال آتا ہے اس پر عمل ہو جاتا ہے۔ خیال نہیں آتا عمل نہیں ہوتا۔ نیند آتی ہے آدمی سو جاتا ہے، نیند پوری ہوتی ہے آدمی بیدار ہو جاتا ہے، نیند نہیں آتی آدمی نہیں سوتا۔ جسمانی تقاضے پورے کرنے کیلئے جس قدر عوامل ہیں وہ اسی وقت تک متحرک ہیں جب تک آدمی زندہ ہے۔ زندگی کے اعمال و افعال میں تمام مخلوق مشترک عمل کرتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سلطان کے بغیر آدمی حرکت نہیں کرتا۔ مثلاً سلطان نہ ہو تو اسے بھوک نہیں لگتی، پیاس نہیں لگتی، راحت اور تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، قوت مدافعت نہیں ہوتی تو پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آدمی صرف جسمانی وجود کا نام ہے۔ جسمانی وجود کو جب تک سلطان نے سنبھالا ہوا ہے تو مخلوق کو چیونٹی کاٹنے کا بھی احساس ہے، لیکن سلطان کے بغیر وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے لیکن اس کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔

ہم آدمی کو کس طرح جانتے ہیں؟ اس طرح جانتے ہیں کہ ’’ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ، پٹھے، گوشت اور کھال سے بنا ہوا ایک مجسمہ ہے۔‘‘

واضح الفاظ میں اس طرح سمجھئے کے ہڈیوں کے اوپر رگ پٹھے ایک قسم کی پٹیاں ہیں۔ پٹیوں کے اوپر روئی رکھی ہوئی ہے اور روئی کے اوپر پلاسٹر چڑھا دیا گیا ہے۔ پٹیاں رگ پٹھے ہیں، روئی گوشت ہے اور کھال پلاسٹر ہے۔ لیکن ہڈیوں، گوشت، رگوں اور پٹھوں سے بنے ہوئے جسم میں ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے سلطان ہڈیوں اور پٹھوں سے بنے اس پتلے کو حرکت دیتا ہے۔ سلطان اگر جسم سے رشتہ توڑ لے تو حرکت ختم ہو جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جسم سلطان کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں:

جسم کے اوپر جب تک لباس ہے، لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے اور جب لباس اتار دیا جاتا ہے تو لباس میں کوئی حرکت نہیں رہتی۔ قمیض، شلوار اور ٹوپی کو ایک جگہ اس طرح رکھ دیا جائے کہ یہ گمان ہو کہ کوئی آدمی لیٹا ہوا ہے اور اسے یہ کہا جائے کہ وہ حرکت کرے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر قمیض زندہ آدمی کے جسم پر ہے تو جسم کی ہر حرکت کے ساتھ قمیض میں حرکت واقع ہوتی ہے۔ یہی صورت حال گوشت پوست کے جسم کی ہے۔ جب سلطان لباس کو اتار دیتا ہے تو اس کی حیثیت ایسے لباس کی ہو جاتی ہے جو لباس جسم کے اوپر نہیں ہے۔

روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اندر کوئی مدافعت باقی نہیں رہتی۔ مرنے کا مطلب یہ ہے کہ سلطان نے گوشت پوست کے لباس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ لباس کا یہ معاملہ عالم ناسوت (عالم دنیا) تک محدود نہیں ہے۔ سلطان ہر عالم۔۔۔ہر مقام اور ہر تنزل کے وقت اپنا ایک نیا لباس بناتا ہے اور اس لباس کے ذریعے اپنی حرکات و سکنات کا اظہار کرتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ حرکات و سکنات کا لباس کے ذریعے اظہار کرتا ہے بلکہ اس لباس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ اس لباس کو نشوونما بھی دیتا ہے۔ کہیں یہ لباس تعفن اور سرانڈ سے بنتا ہے، کسی Zoneمیں یہ لباس روشنیوں کے تانے بانے سے بنا جاتا ہے۔ اور یہی لباس نور سے وجود میں آتا ہے۔ سلطان جب لباس کو تخلیط (Matter) سے بناتا ہے تو مادے کی اپنی خصوصیت کے تحت لباس (جسم) کے اوپر زمان و مکاں کی پابندیاں لاحق رہتی ہیں۔


دو رخ

ہر ذی روح دو رخوں میں زندگی گزارتا ہے، ایک رخ میں مادی وجود کا عمل دخل ہے اور دوسرے میں مادی وجود کا عمل دخل نہیں ہے۔ البتہ اس حد تک رشتہ قائم رہتا ہے کہ سانس آتا جاتا رہتا ہے۔ دماغ کا وہ حصہ جو انفارمیشن کو قبول کرکے مادی وجود سے تعمیل کراتا ہے معطل ہو جاتا ہے۔ معطل ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ دماغ کا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہوتی ہے کہ دماغ مادی وجود سے اس حد تک تعلق رکھتا ہے کہ جسم میں زندگی دوڑتی رہے۔

ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ نیند کی حالت میں دماغ جسم کی حفاظت کرتا ہے۔ آدمی اگر کئی دن، کئی ہفتے، کئی مہینے بھی سوتا رہے تو جسم میں تغیر نہیں ہوتا۔ اس کی مثال کوما (Comma) ہے۔ کوما نیند کی ملتی جلتی حالت ہے۔ نیند میں آدمی زندہ رہتا ہے لیکن اس کے برعکس موت سے آدمی مر جاتا ہے۔ کوما میں آدمی سال بھر یا کئی سال بھی زندہ رہتا ہے اور جسم میں تعفن پیدا نہیں ہوتا۔

جبکہ موت کے بعد آدمی میں یا کسی بھی مخلوق میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ نا صرف تعفن پیدا ہوتا ہے بلکہ جسم پانی اور ذرات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا عمل ہے جس سے ہر مخلوق واقف ہے اور متاثر ہوتی ہے۔ یہ کیفیت صرف آدمی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مخلوق کے ساتھ یہ عمل ہوتا ہے۔

ہم اس کی تشریح کرنا چاہتے ہیں کہ 

’’آدمی موت و حیات میں مستقل رد و بدل ہو رہا ہے۔‘‘

پیدائش کے بعد پہلے دن کی زندگی دوسرے دن کی زندگی میں تبدیل ہو جاتی ہے، چھ مہینے میں اس طرح تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچہ پر ایک دن کی عمر کا تاثر قائم نہیں ہوتا اور اسی رد و بدل سے ہر ذی روح اور جس مخلوق کو غیر ذی روح سمجھا جاتا ہے وہ شب و روز میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

ہر مخلوق پیدا ہوتی ہے اور شب و روز میں رد و بدل ہوتی رہتی ہے۔ ہر مخلوق ہر منٹ، ہر گھنٹہ، ہر دن، ہر رات تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی واقع نہ ہو تو جمود طاری ہو جائے گا اور مخلوق کا کوئی فرد پالنے سے باہر نہیں آئے گا۔ بچپن، لڑکپن میں تبدیل نہیں ہو گا۔ لڑکپن، جوانی میں تبدیل نہیں ہو گا اور جوانی، بڑھاپے میں تبدیل نہیں ہو گی۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایک دن کا بچہ، وہ بچہ آدمی کا ہو، چوپائے کا ہو، پرندہ کا ہو، حشرات الارض ہوں یا کوہسار ہوں، سب رد و بدل ہو رہے ہیں۔ زندگی کا دارومدار حرکات و سکنات پر ہے اور حرکات و سکنات کا دارومدار سانس پر ہے۔ سانس کے بھی دو رخ ہیں۔

۱) سانس کا پہلا عمل یہ ہے کہ جسم میں سانس اندر جاتا ہے۔

۲) دوسرا عمل یہ ہے کہ سانس جسم میں سے باہر آتا ہے۔

اس بات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ مخلوق کے اندر جب سانس جاتا ہے تو جسم Oxygenقبول کرتا ہے اور جب سانس باہر آتا ہے تو آکسیجن جلتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ (Carbon Dioxide) باہر آتی ہے۔

میں نے کسی مضمون میں لکھا ہے کہ ایک گھر میں دس آدمی رہتے ہیں، کہا یہ جاتا ہے کہ انسان یا کوئی ذی روح آکسیجن کے ذریعہ زندہ رہتا ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ ایک گھر میں دس آدمی رہتے ہیں اور دس آدمیوں میں سے ایک آدمی مر جاتا ہے اور اس گھر میں نو آدمی زندہ رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ گھر میں آسمان کے نیچے ماحول میں کوئی رد و بدل نہیں ہوتا۔ دس آدمیوں میں سے نو آدمی زندہ ہیں، متحرک ہیں، جذبات و احساسات ان کے اندر کام کر رہے ہیں، انہیں رنج و راحت کا احساس بھی ہے، وہ خوش ہو رہے ہیں، اور غمگین بھی۔ پھر اس بات کو کس طرح بیان کیا جائے گا کہ دس آدمیوں میں سے ایک آدمی مر گیا۔ جبکہ ہوا، آکسیجن اور دوسری گیسیں(Gases) وہاں موجود ہیں۔ دس میں سے ایک آدمی آکسیجن یا دوسری گیس سے کیسے محروم ہوا؟ جبکہ نو آدمی زندگی کے عوامل میں متحرک ہیں۔

یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ جب ماحول میں سب کچھ موجود ہے۔ ہوا، پانی، آکسیجن اور دوسری گیسیں(Gases) تو ہزاروں آدمیوں میں سے ایک آدمی زندگی سے کس طرح محروم ہو گیا؟ اگر ایک آدمی گیس اور آکسیجن ختم ہونے سے مرگیا تو ہزاروں آدمی آکسیجن سے کیسے محروم نہیں ہیں؟

زندگی کا تعلق سانس سے ہے، سانس مادی وجود سے تعلق نہ رکھے تو آدمی مر جاتا ہے اور اس کی تمام حرکات و سکنات ختم ہو جاتی ہیں۔

ہمارا تجربہ ہے کہ زندہ آدمی کے جسم پر نشتر لگایا جائے تو دماغ اس آدمی کو نشتر لگنے کے عمل سے مطلع کرتا ہے لیکن مادی وجود سے سلطان اگر رشتہ منقطع کر لے تو مردہ آدمی کے اندر کوئی مدافعت نہیں رہتی۔ رات دن اسپتالوں میں پوسٹ مارٹم ہوتا رہتا ہے، کبھی کسی مردہ جسم نے مدافعت نہیں کی۔ مادی جسم کی حرکات و سکنات اس وقت تک ہوتی ہیں جب تک جسم میں سلطان موجود ہے۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔