Topics
طرز فکر اگر مثبت اور انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث اولیاء اللہؒ کی طرز فکر سے ہم آہنگ ہے تو اس سے جو بھی عمل صادر ہوتا ہے وہ نوع انسانی اور دیگر مخلوق کے لئے سکون و راحت کا باعث ہوتا ہے اور طرز فکر اگر محدود ہے، ذاتی منفعت اور انفرادی اغراض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال فی الوقت نوع انسانی کے اجتماعی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ صلاحیتوں کا استعمال صرف اور صرف اس لئے ہے کہ کسی ایک فرد یا مخصوص گروہ کی اجارہ داری قائم کر کے افراد کو محکوم بنا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ منظر عام پر آنے والی نئی نئی ایجادات سکون و آرام کے بجائے نوع انسانی کے لئے پریشانی اور بے سکونی بن گئی ہیں۔
انبیاء کرام ؑ چونکہ ایسی طرز فکر کے حامل ہوتے ہیں جس میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے، کسی چیز کا رشتہ براہ راست ہم سے نہیں بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت قائم ہے۔ لہٰذا ان کی سوچ لامحدود وسعت کی حامل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان فرستادہ بندوں سے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات کے تحت جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی فلاح کا سامان میسر آتا ہے۔ کیوں کہ وہ مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں اور حقیقت میں ذہنی انتشار نہیں ہوتا۔ حقیقت کے اوپر غم اور خوف کے سائے نہیں منڈلاتے۔ حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پر سکون رہتے ہیں۔
راسخ فی العلم برگزیدہ ہستیوں کے دیئے ہوئے سسٹم اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے نوع انسانی سکون آشنا زندگی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔
مشاہداتی نظر
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں سورہ بقرہ کی ابتدائی آیتوں میں فرمایا ہے کہ
’’اس کتاب میں شک نہیں ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
(سورۃ البقرہ۔ آیت۱)
غیب پر یقین رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشاہداتی نظر کے حامل ہوں۔ ان کے اندر غیب بین نظر کام کرتی ہو۔ جب تک انسان کے اندر مشاہداتی نظر کام نہیں کرے گی اس کے لئے کائنات تسخیر نہیں ہو گی۔
تسخیر یہ بھی ہے کہ زمین ایک قاعدے اور ضابطے کے تحت ہمیں رزق فراہم کر رہی ہے۔ ہم زمین پر مکان بناتے ہیں تو زمین مکان بنانے میں حائل نہیں ہوتی۔ زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اُگا سکیں، اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں۔
سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ ایک قاعدے اور ضابطے میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں جو ان کے اوپر فرض کر دی گئی ہے۔ چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میوے پکتے ہیں۔ الغرض کائنات کا ہر جزو اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری یا غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔
ایک تسخیر یہ ہے کہ آپ اپنے اختیار کے تحت زمین سے، سمندر سے، دریاؤں سے، پہاڑوں سے، چاند سے، سورج سے اور دیگر اجزائے کائنات سے کام لے سکیں۔۔۔۔۔۔اور اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انگلی سے اشارہ کر دیں تو چاند دو ٹکڑے ہو جائے۔
حضرت عمر فاروقؓ دریائے نیل کو خط لکھ دیں۔ ’’اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آ جا ورنہ عمر کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے۔‘‘
ایک شخص نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی! ’’یا امیرالمومنین! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، بیج ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج جل جاتا ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا۔ ’’جب میرا اس طرف سے گزر ہو تو بتانا۔‘‘
حضرت عمرؓ جب ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔ حضرت عمرؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا کہ
’’تو اللہ تعالیٰ کے بندے کی محنت ضائع کرتی ہے جب کہ وہ تیری ضروریات پوری کرتا ہے۔‘‘
اور اس کے بعد زمین لہلہاتے کھیت میں تبدیل ہو گئی۔
ہم جانتے ہیں کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے۔ کائنات کے تمام اجزاء بشمول انسان اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک مرکزیت پر قائم ہیں۔
آیئے! انسان کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگائیں۔ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہمارے تصورات اور احساسات گوشت پوست کے ڈھانچے کے تابع نہیں ہیں بلکہ روح کے تابع ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق روح کا علم قلیل دیا گیا ہے مگر لامحدود کا قلیل جزو بھی لامحدود ہوتا ہے۔ روح لامحدود علم ہے اس علم کے جاننے والے حضرات نے اس علم کو سمجھنے کے لئے اس کی درجہ بندی کی ہے اور فارمولے بنائے ہیں اور ان فارمولوں سے اپنے شاگردوں کو روشناس کیا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔