Topics

لیکچر8 ۔ ہمارے بچے

مورخہ 9مارچ 2001 ؁ء بروز جمعتہ المبارک

حضورﷺ کا ارشاد ہے۔۔۔

’’لوگوں سے ان کی صلاحیت کے مطابق بات کرو۔‘‘

بات کرنے والے صاحب یا صاحبہ کو یہ غور کرنا چاہئے کہ مخاطب کی صلاحیت کتنی ہے اور شعوری استطاعت کتنی ہے۔

حکمت

اگر دو سال کے بچے کے ساتھ کھلونے سے کھیلا جائے، بچہ کو کمر پر بٹھا کر سیر کرائی جائے، بچہ کے ذہن کے مطابق اس کے ساتھ چھیڑ خانی کی جائے تو بچہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن اگر بچہ کے شعور سے زیادہ بات کی جائے تو بچہ آپ میں دلچسپی نہیں لے گا وہ آپ کے پاس سے چلا جائے گا۔

یہی حال بڑے لوگوں کا ہے۔ ان کی سمجھ کے مطابق ان سے گفتگو کی جائے تو وہ غور سے سنتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں سے بچوں کے ذہن کے مطابق اور بڑوں سے بڑوں کی صلاحیت کے مطابق بات کی جائے۔ اگر بچوں سے بڑوں کی طرح بات کی جائے تو وہ بات نہیں سمجھیں گے اور دلچسپی نہیں لیں گے۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ آدمی کو مخاطب کی صلاحیت کے مطابق بات کرنی چاہئے۔ گفتگو میں طنز کیا جائے تو مخاطب سے دوری ہو جاتی ہے۔ ادب اور بے تکلفی دونوں ضروری ہیں۔ یہ ادب نہیں ہے کہ باپ اور بیٹے، بیٹے اور باپ میں، بڑے اور چھوٹوں، چھوٹے اور بڑوں میں آپس میں بات چیت نہ ہو۔ اور یہ بے ادبی ہے کہ اپنے مخاطب سے ایسی باتیں کی جائیں جو اس کے شعور سے زیادہ ہوں۔

یاد رکھئے! گھر کے ماحول سے معاشرے کی قدریں قائم ہوتی ہیں۔ تجربہ ہے کہ جن گھرانوں میں ماں باپ کا لہجہ سخت ہوتا ہے یا لوگ چیخ کر بولتے ہیں، گھر کے بچے بھی چیخ کر بات کرتے ہیں اور جب گھر میں لوگ چیخ کر بولتے ہیں تو غصہ سے بولنا، گفتگو میں طنز شامل ہو جاتا ہے۔ گھر کا ہر آدمی طنز کرتا ہے، چیخ کر بولتا ہے اور پھر گھر کے افراد اس وقت تک بات نہیں سمجھتے جب تک چیخ کر نہ بولا جائے۔

گفتگو میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہئے۔ احتیاط یہ ہے کہ گفتگو میں آواز بلند نہ ہو ۔ طنز نہ ہو۔ گفتگو میں دھیما پن ہو اور لوگوں کی صلاحیت کے مابق بات کی جائے۔ اس طرح گھر کے افراد اور ماحول میں لوگ خوش مزاج ہونگے، سمجھدار ہوں گے اور ایک دوسرے کا ادب کریں گے۔ یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ بات کرتے وقت لفظوں کا انتخاب اچھا ہو۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔