Topics

تیس سال پہلے

سلسلۂ عظیمیہ کے تحت خدمت خلق کا جو پروگرام بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ تقریباً تیس برس بیشتر کراچی کے علاقے ناظم آباد کے ایک مکان سے شروع ہوا۔ 

آج خدا کے فضل و کرم سے اور حضورﷺ کی شفقت کے زیر سایہ سلسلۂ عظیمیہ سے منسلک افراد تقریباً دنیا کے ہر خطہ میں موجود ہیں۔ سلسلہ کے پیغام کو عوام الناس میں زیادہ سے زیادہ روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ جناب عظیمی صاحب نے اس پہلو پر بھی توجہ دی ہے کہ ایسے لوگ جمع ہو جائیں جو علم لدنی کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور اپنی روح کا عرفان حاصل کر کے خدا کی مخلوق کے زیادہ سے زیادہ کام آئیں۔ اس طرح خدمت خلق کا جو سلسلہ ایک فرد سے شروع ہوا وہ ایک تنظیم اور ادارے کی صورت میں صدیوں تک جاری و ساری ر ہے۔

اس مقدس خیال کو سامنے رکھتے ہوئے اراکین سلسلۂ عظیمیہ نے منصوبہ بندی شروع کی اور قلندر شعور فاؤنڈیشن کے تحت لاہور کے بعد سرجانی ٹاؤن میں ایک قطعۂ زمین خریدا گیا۔ اس جگہ فری ڈسپنسری، تعلیمی ادارہ، لائبریری اور سلسلۂ عظیمیہ کا مرکزی مراقبہ ہال تعمیر ہوا۔ 

۲۸دسمبر ۱۹۸۸ ؁ء مرکزی مراقبہ ہال کراچی کی تقریب سنگ بنیاد کا دن تھا۔ یہ پروقار تقریب سرجانی ٹاؤن کراچی میں منعقد ہوئی۔ آیئے آپ کو اس تقریب کے بارے میں بتاتے ہیں۔

سرجانی ٹاؤن ابھی غیر آباد ہے اور عام افراد خاص طور پر پہلی بار آنے والوں کو یہاں تک پہنچنے کے لئے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے نہایت عقیدت و محبت سے اس تقریب میں شرکت کی۔ خواتین اور ایسے تمام افراد کے لئے جن کے پاس ذاتی سواری نہ تھی مراقبہ ہال نارتھ ناظم آباد سے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود لوگ جوق در جوق پیدل تشریف لائے۔ سرجانی ٹاؤن کے مین روڈ سے تقریب کے مقام تک جگہ جگہ قلندر شعور فاؤنڈیشن کے کارکن آنے والوں کے استقبال اور رہنمائی کے لئے موجود تھے۔

تقریب کا آغاز دن کے ۱۱ بجے تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ قاری کے فرائض انیس احمد خان صاحب نے انجام دیئے۔ پھر جناب تنویر احمد اشرفی صاحب نے ایک خوبصورت اور پرعقیدت نعت پیش کی۔ اس کے بعد پنجاب سے آئے ہوئے ایک مہمان صوفی نذر حسین صاحب نے عارفانہ کلام پیش کیا۔

تقاریر کا آغاز جناب فضل الرحمان قریشی کی تقریر سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سلسلہ عظیمیہ کے شعبہ خدمت خلق سے وابستہ ہیں۔

قریشی صاحب نے بتایا کہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے نام پر آنے والے خطوط کی تعداد اوسطاً سات ہزار خطوط ماہانہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ۱۹۶۸ ؁ء سے ۱۹۸۸ ؁ء تک عظیمی صاحب نے تقریباً سات لاکھ خطوط کے جوابات دیئے ہیں۔

ان کے بعد قلندر شعور فاؤنڈیشن کے جنرل سیکرٹری جناب ڈاکٹر حکیم وقار یوسف عظیمی نے مختصر تقریر کی جس میں انہوں نے حاضرین کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور مرکزی مراقبہ ہال کے پروجیکٹ کی تفصیلات بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پلاٹ، مراقبہ ہال، اسکول اور اسپتال کی تعمیر کے لئے لیا گیا ہے۔ پراجیکٹ کے تحت بننے والی عمارت کا نقشہ سلسلہ عظیمیہ کے آرکیٹیکٹ جناب اقبال احمد عظیمی بنا رہے ہیں۔ اس پراجیکٹ کی مرحلہ وار تکمیل میں تقریباً تین سال کا عرصہ لگے گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ عمارت تین حصوں پر مشتمل ہو گی۔ پہلا فیز مراقبہ ہال اور مسجد ہو گا۔ دوسرے فیز میں اسکول اور اسپتال بنیں گے۔ تیسرے فیز میں اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان سے آنے والے مہمانوں کے لئے کمرے بنائے جائیں گے۔ انشاء اللہ

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسپتال قائم ہو گا جس میں کلر تھراپی سیکشن (رنگ و روشنی سے علاج) اور ایلوپیتھی سے علاج کیا جائے گا۔ حکیم وقار یوسف عظیمی صاحب نے امید ظاہر کی کہ یہ سینٹر روحانی تعلیمات کا بہت بڑا مرکز ثابت ہو گا۔

ان کے بعد پیر طریقت سید گل آغا گیلانی صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ مراقبے کا جو سلسلہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ اور حضرت عظیمی صاحب کے توسط سے شروع ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کا فیض جاری فرمائیں۔ میں خود بھی اپنے احباب اور متعلقین کو کہتا رہتا ہوں کہ اس میں شرکت کریں۔ انہوں نے اس مرکزی جامعہ کے لئے نبی کریمﷺ کے توسط سے اللہ تعالیٰ کے فضل کی دعا کی۔

تقریب کا سب سے اہم حصہ خانوادۂ سلسلہ عظیمیہ اور قلندر شعور فاؤنڈیشن کے صدر حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تقریر تھی۔ عظیمی صاحب نے اپنی تقریر کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا۔

عظیمی صاحب نے فرمایا۔

’’آپ حضرات دور دراز کا سفر کر کے اس بیابان میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے تشریف لائے۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اس جذبے کو قبول فرمائے اور ہم سب پر آقائے نامدار حضرت محمد رسول اللہﷺ کی رحمت ہو۔‘‘

’’ہم سب اپنے آقا تاجدار مدینہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل کریں۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے اگر ہم اپنے اندر فکر کریں اور اپنا کھوج لگائیں تو یہ بہت آسان بات ہو جاتی ہے۔ اندر کی نظر جب کھل جاتی یہ توغیب کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد رسول اللہﷺ کی زیارت سے مشرف ہو جاتے ہیں۔‘‘

نبی کریمﷺ نے معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز کی باتیں کی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ۔۔۔

’’نظر نے جو کچھ دیکھا دل نے اس میں جھوٹ نہ ملایا۔‘‘(سورۃ النجم۔ آیت۱۱)

معراج کا مفہوم ہے غیب کی دنیا میں سفر کرنا اور معراج کے معنی ہیں وہ آنکھ کھل جانا جس سے آدمی غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو ایک پروگرام دیا ہے اور اس پروگرام کے بارے میں فرمایا ہے کہ

’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘

جو آدمی صلوٰۃ قائم کر لیتا ہے اس کو معراج نصیب ہو جاتی ہے یعنی کوئی بندہ صلوٰۃ کے ذریعے غیب کی دنیا میں داخل ہو کر رسول اللہﷺ کی زیارت کرتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔

لیکن جب ہم چودہ سو سال کی تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہمارے بزرگ بھی نماز پڑھتے تھے۔ ہمارے اسلاف اسلام کے ایک ایک رکن کو پورا کرتے تھے۔ جو کام چودہ سو سال پہلے وہ کرتے تھے وہی کام ہم کرتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ جب ہمارے اسلاف یہ کام کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت دی، وقار دیا اور ساری دنیا پر ان کی حکمرانی قائم کر دی۔ وہی کام جو ہمارے بزرگ کرتے تھے ہم بھی کرتے ہیں لیکن ہم ذلیل و خوار ہیں۔ بدحال ہیں اور غیروں کی خیرات لینے پر مجبور ہیں۔

آیئے! ہم سب اس بات پر غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف بھی نماز پڑھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عروج بخشا اور اتنا عروج بخشا کہ دنیا کے ہر کونے میں اسلام کی حکمرانی ہو گئی تھی وہی نمازیں ہم بھی پڑھتے ہیں مگر ہمیں عزت و مرتبہ حاصل نہیں ہے۔

معاشرتی نظام کا یہ حال ہے کہ قرآن کہتا ہے سود حرام ہے اور جو لوگ سودی کاروبار کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اور ہماری معیشت سودی نظام پر قائم ہے اور یہ نظام ہمیں اقوام غیر سے ملا ہے۔

جب ہم علم کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تو ایک وقت تھا جب ہمارے بزرگ ایجاد کرتے تھے۔ مسلمانوں نے بڑی بڑی چیزیں ایجاد کی ہیں۔ اور آج حال یہ ہے کہ ہم علم کے لئے بھی غیر قوموں کے محتاج ہیں۔

یہ بات طے ہو گئی کہ ہم اس لئے ذلیل و پریشان ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف کی روایات کو چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں اسے سمجھنے کے لئے ہمیں Concentrationکی ضرورت ہے۔ سوچ بچار اور فکر کی ضرورت ہے اور اگر ہم میں غور و فکر نہیں ہو گا تو ہم قرآن نہیں سمجھ سکتے۔ ہمارے اسلاف قرآن سے ہی تمام ایجادات اور سائنسی فارمولے بناتے تھے۔ یہ تفکر ہی تھا جس نے ان کے ذہن کے بند دریچے اور نئے راستے کھول دیئے تھے۔

کچھ عرصہ قبل جب میں امریکہ میں تھا وہاں کئی اسٹیٹس میں گیا۔ میں نے غور کیا کہ ان لوگوں کی اس مادی ترقی کا کیا راز ہے؟

میں نے دیکھا کہ وہ عنصر تھا لوہا۔

اگر وہاں ۱۱۰ منزلہ عمارت کھڑی ہے تو پوری لوہے کے ڈھانچے پر ہے۔ اگر انڈر گراؤنڈ ریلوے اسٹیشن ہیں تو سب لوہے اور کنکریٹ سے بنے ہوئے ہیں۔ پُل اوپر نیچے بنے ہوئے ہیں تو وہ لوہے کی کارفرمائی ہے، جہاز اور ہر قسم کی مشینوں میں بھی بنیادی عنصر لوہا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’ہم نے لوہا نازل کیا اور اس میں انسان کے لئے بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں، کوئی ہے ڈھونڈنے والا؟‘‘

(سورۃ الحدید۔ آیت ۲۵)

آپ سائنس کی ہر ایجاد پر غور کریں آپ کو کسی نہ کسی حوالے سے لوہا نظر آئے گا اور ہر ایجاد کے پس منظر میں تفکر نظر آئے گا۔

ٹیلی فون، ریڈیو، ٹیلی ویژن ایک دن میں ایجاد نہیں ہوئے سالوں تک بے شمار لوگوں کی خیال آزمائی، تفکر اور تجربات کے بعد یہ وجود میں آئے ہیں۔ اگر مسلمان تفکر نہیں کریں گے تو یہ جتنے ذلیل و خوار اب ہیں اس سے کہیں زیادہ اور خوار ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ حاکم ہیں، خالق ہیں، رب ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ کو پہچاننا چاہتے ہیں تو اس کائناتی نظام میں تفکر کریں۔

اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’دیکھو ہم نے آسمان کو کس طرح بلند کر دیا کہیں کوئی ستون نظر نہیں آتا اور ہم نے پہاڑوں کی کیلیں اور میخیں بنا کر کس طرح زمین میں گاڑ دیا اور دیکھو ہم نے زمین کو کیسی وسعت دی نہ اس کو ایسا نرم رکھا کہ تم اس میں دھنس جاؤ اور نہ اتنا سخت کہ تم ٹھوکریں کھا کر گرو۔‘‘

چودہ سو سال سے نبی کریمﷺ کے تربیت یافتہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام دہرانے کیلئے بھیجے گئے۔ اس صدی میں اللہ تعالیٰ نے قلندر بابا اولیاءؒ کو پیدا کیا اور ان کو ایسی تعلیمات کا پرچار کرنے کا شعبہ عطا کیا جن میں سائنس ہو۔

روحانیت کو اس طرح بیان کیا جائے کہ سائنس کے نقطۂ نظر سے لوگ سمجھ سکیں اور لوگوں کا جو سائنسی شعور بیدار ہو گیا ہے اس شعور سے وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کریں۔

ایک شعبہ ہے تکوین (ایڈمنسٹریشن) اس کو اللہ تعالیٰ کے بندے چلاتے ہیں مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے تعلیم کے دوران مجھے بتایا کہ

’’یہ کائناتی نظام اس طرح ہے کہ:

ایک کتاب المبین ہے۔

ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوح محفوظ ہیں۔

ہر لوح محفوظ پر اسّی (۸۰) ہزار حضیرے۔

ایک حضیرے میں ایک کھرب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام۔

ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔

ہر سورج کے گرد نو، بارہ یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔

حساب لگائیں کہ اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا نظام کس طرح چل رہا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ نظام اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے چلا رہے ہیں۔ نظام تکوین میں فرشتے ان کے معاون ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک کائناتی نظام تخلیق کیا اور اس نظام کو چلانے کے لئے انسانوں میں سے خلیفہ (نائب) بنائے۔

فرشتوں سے کہا کہ جو نظام میں نے بنایا ہے اس کو انسان چلائے گا۔ فرشتوں نے کہا۔ آپ نے انسان کو نظام کائنات چلانے کے لئے منتخب کیا ہے۔ انسان فساد کرے گا خون خرابہ کرے گا۔

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اپنی صفات کا علم سکھایا۔ کائنات کے تخلیقی فارمولے سکھائے اور حضرت آدم علیہ السلام سے کہا۔ بیان کر جو کچھ ہم نے تجھے سکھایا ہے اور جب حضرت آدم علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی تو فرشتے دم بخود رہ گئے اور کہا۔

’’بے شک! ہم نہیں جانتے تھے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں بتایا ہے۔‘‘

اور اس کے بعد فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کی حاکمیت قبول کر لی۔

اس امر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انسان کا شرف یہ ہے کہ اسے وہ علم آتا ہو جو علم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نہیں سکھایا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس علم کو بھلا دیا جس سے ہمارے اسلاف واقف تھے اور اس میں تفکر کرتے تھے نتیجتاً وہ ساری دنیا کے حاکم تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم تفکر کریں تو کیسے کریں۔ اس کے لئے بھی ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنا ہو گا۔

سیدنا حضورﷺ مکہ شریف سے کئی میل دور ایک اونچی پہاڑی پر نبوت ملنے سے قبل عبادت کے لئے جاتے تھے۔ یہ عبادت مراقبہ تھی۔ مراقبے کا مطلب ہے غور و فکر کرنا۔ اسی غور و فکر کے دوران اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو آپﷺ کے پاس بھیجا۔ وہ حضورﷺ کے پاس آئے اور کہا۔

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا۔ ’’میں اُمی ہوں۔‘‘

جبرائیل علیہ السلام نے کہا۔ ’’آپﷺ کا رب یہی چاہتا ہے۔‘‘

حضورﷺ کے توسط سے قرآن جیسی کتاب ہمیں عطا فرمائی گئی ہے۔ 

مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ عاجز بندے کو مراقبے کا علم سکھایا۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم نبی کریمﷺ کی غار حرا والی سنت پر عمل کریں۔ نماز، روزہ کے ساتھ مراقبے (Meditation) کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں تو انشاء اللہ آپ کی نظر بھی کھل جائے گی اور ذہن وسیع ہو جائے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے توفیق دیں کہ ہم اپنے اسلاف کے اس ورثے کو جس کی وجہ سے ہم پوری دنیا پر حکمران تھے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ توفیق دیں کہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں ہم غور و فکر کریں اور قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں اور قرآن کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عربی زبان سیکھیں اور مراقبہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غار حرا میں مراقبہ کیا ہے۔

مراقبہ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنا۔ جب غور و فکر کی عادت راسخ ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ذہن میں آنے لگتی ہیں اور ایسے بندہ کو یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔

انشاء اللہ تعالیٰ میں کتاب و سنت کے مطابق ایک ایسا نظام ترتیب دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے بچے شروع ہی سے غور و فکر کے عادی ہو جائیں۔

**پروگرام یہ ہے کہ:

پہلے ایک قاعدہ لکھوں پھر ابتدائی کتاب لکھوں جیسے پہلی، دوسری، تیسری جماعت کی کتابیں ہیں تا کہ ہمارے بچے شروع ہی سے اپنے اسلاف کے ورثے سے واقف ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے قرآن اتارا۔ اپنے محبوب بندے کو ہمارے درمیان نبی مکرمﷺبنا کر بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وعدہ کیا کہ ہم نے ساری کائنات تمہارے لئے مسخر کر دی ہے۔

حال یہ ہے کہ ہم غیر قوموں کی بھیک پر گزارا کر رہے ہیں، مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذہن دیا ہے۔ مگر ہم پھر بھی غیر قوموں کے محتاج بن گئے ہیں۔ ایک مسلمان جس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے جس کا ورثہ علم الاسماء ہے جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا ہے وہ دوسری قوموں کی بھیک کھائے یہ انتہائی شرم کی بات ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ قرآن میں غور و فکر کر کے اپنے اسلاف کا ورثہ حاصل کرنا ہے۔ 

دعا کریں کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے اللہ تعالیٰ اسے پورا فرما دیں۔

**۱۹۸۸ ؁ء میں جو کچھ عظیمی صاحب نے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ پروگرام اس طرح پورا ہو چکا ہے۔

مراقبہ ہالز کا قیام اندرون اور بیرون ملک ۸۰ مراقبہ ہال کام کر رہے ہیں۔

* عظیمی پبلک ہائر سیکنڈری اسکول (کراچی، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گجرات)۔

* الحمدللہ برخیا میموریل ہسپتال کی O.P.Dنے کام شروع کر دیا ہے جو کہ ۶۰ بستروں کا اسپتال ہے۔

* فری ڈسپنسری

* اسلامیات کا کورس پہلی سے آٹھویں جماعت تک مختلف اسکولوں میں باقاعدہ پڑھایا جا رہا ہے۔

* بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں M.Aکے نصاب میں عظیمی صاحب کی کتاب ’’احسان و تصوف‘‘ شامل ہے اور یونیورسٹی میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر لیکچر ڈیلیور کرتے ہیں۔ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں کتاب ’’مراقبہ‘‘ ریفرنس بک کی فہرست میں شامل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۶ اگست ۲۰۰۹ ؁ء تک یہ کام ہو چکے ہیں۔

پراجیکٹ بہت بڑا ہے جہاں تک ہماری انفرادی کوششوں کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں برکت دیں رسول اللہﷺ کی محبت، نسبت اور فیض یقیناً ہمارے ساتھ ہے۔

مرکزی مراقبہ ہال کی افتتاحی تقریب جمعۃ المبارک کے دن منعقد ہوئی۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد عظیمی صاحب نے یہ اعلان کر کے حاضرین کو خوش کر دیا کہ

’’دوران نماز ایک عظیمی بھائی نے یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زیارت کی ہے۔‘‘

یہ سن کر خواتین و حضرات کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور کچھ افراد کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔