Topics

تقدیر کیا ہے؟

ہر انسان کے اندر دو تقدیریں کام کرتی ہیں۔

۱۔ تقدیر معلق

۲۔ تقدیر مبرم

تقدیر معلق میں آدمی کے اختیار کا عمل دخل ہے اور مبرم میں اختیار حاصل نہیں ہے۔ انسانی زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہر آدمی دو رخوں پر زندگی گزارتا ہے۔ مثلاً ہر انسان کو بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے، ہر انسان گرمی سردی سے متاثر ہوتا ہے۔

مثال

بندہ کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہتا۔ سونا جاگنا بھی مخلوق کی مجبوری ہے۔ لیکن کھانا کتنا کھائے، پانی کتنا پئے، کتنی دیر سوئے، یہ تقدیر معلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہتے لیکن کھانے پینے میں کمی بیشی کرنے کا ہمیں اختیار ہے۔

اللہ رب العالمین کو تسلیم کرنا تقدیر مبرم ہے۔ اس لئے کہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرتا ہے تو انکار بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی ہستی ہے جس کا انکار کیا جا رہا ہے۔ اگر ہستی نہ ہو۔۔۔تو انکار اور اقرار دونوں زیر بحث نہیں آتے۔

حضرت علی ؓ کا ارشاد

حضرت علیؓ کا مشہور واقعہ ہے۔ کسی نے سوال کیا تقدیر کیا ہے؟ اور تقدیر پر انسان کا کتنا اختیار ہے؟

حضرت علیؓ نے فرمایا:

’’ایک ٹانگ پر کھڑا ہو جا۔‘‘

وہ شخص جب ایک ٹانگ پر کھڑا ہو گیا۔ تو حضرت علیؓ نے فرمایا:

’’دوسری ٹانگ بھی اٹھا۔‘‘

اس شخص نے کہا۔ ’’گر جاؤں گا۔‘‘

حضرت علیؓ نے فرمایا۔ ’’دونوں ٹانگوں پر کھڑے رہنا اختیاری عمل ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں کھانے پینے کے لئے دی ہیں۔ ان میں سے سب چیزیں استعمال کرنا یا کوئی ایک چیز زیادہ دوسری چیز کم استعمال کرنا تقدیر معلق ہے۔۔۔لیکن کچھ کھانا اور ضرور کھانا تقدیر مبرم ہے۔ کھائے بغیر آدمی زندہ نہیں رہ سکتا اور کتنی مقدار میں کھانا اور کیا کھانا تقدیر معلق ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جب ’’کن‘‘ فرمایا تو ساری کائنات تخلیق ہو گئی۔

فرشتے، جنات اور آدم ؑ 

فرشتے اور فرشتوں کی چار نوعیں

۱۔ فرشتے

ملاء اعلیٰ۔ ملائکہ روحانی۔ ملائکہ سماوی۔ ملائکہ عنصری

۲۔ جنات اور جنات کی دنیا

جنات۔ جنات کے حیوانات۔ جنات کی دنیا میں جمادات۔ جنات کی دنیا میں نباتات

۳۔ (موالید ثلاثہ)

حیوانات ۔ جمادات۔ نباتات 

حیوانات میں آدمی، چوپائے، پرندے شامل ہیں۔ اس بات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ کائنات میں تین نوعوں کی مخلوق موجود ہے۔

۱۔ فرشتے

۲۔ جنات

۳۔ آدمی

جس طرح آدمی کے اندر روح کام کرتی ہے اور زندگی کا دارومدار روح پر ہے۔ کائنات میں کوئی تخلیق روح کے بغیر نہیں ہے۔ ہر تخلیق کی اصل ’’روح‘‘ ہے۔

جس طرح تین تخلیقات فرشتے، جنات اور حیوانات (آدمی) کائنات میں موجود ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے سیاروں میں آدمی، جنات اور فرشتے موجود ہیں۔

انسان اور موالید ثلاثہ

جنات اور انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں ایک حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لئے دونوں مخلوقات میں روحانی علوم سیکھنے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہے۔ لیکن انسان میں روحانی علوم سیکھنے کی اضافی صلاحیت موجود ہے۔ 

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔