Topics

ڈائری

اتوار ۳ اپریل کو حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے لطیف آباد، حیدر آباد میں سلسلہ عظیمیہ کے تحت ہونے والے خواتین کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔

دوران خطاب عظیمی صاحب نے فرمایا عورت ہو یا مرد، تخلیق کے قانون کی رو سے دونوں کو فضیلت حاصل ہے۔ اگر دونوں میں سے کوئی ایک نہ ہو تو تخلیق آگے نہیں بڑھتی۔ لیکن جسمانی ساخت کے فرق کے لحاظ سے کوئی عورت ہے اور کوئی مرد ہے۔

اس کے علاوہ عورت اور مرد دونوں کی جسمانی (مادی ساخت) کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اگر مادی جسم میں ’’روح‘‘ کام نہ کرے کیونکہ مرنے کے بعد جب ’’روح‘‘ بدن سے نکل جاتی ہے تو چاہے عورت کا جسم ہو یا مرد کا جسم ہو (دونوں بے کار ہو جاتے ہیں)۔

اصل چیز ’’روح‘‘ ہے اور روح وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے پُتلے میں پھونکی ہے۔ الغرض عورت ہو یا مرد یا کائنات کا کوئی بھی مذکر ہو یا مونث وہ اس لئے موجود ہے کہ کائنات میں تخلیق کا عمل جاری ہے۔

عورت اور مرد کی ذمہ داریاں الگ الگ ہیں اس وجہ سے جسمانی ساخت میں فرق ہے لیکن دونوں کو رتبہ اور فضیلت حاصل ہے۔ اس کی واضح مثال قرآن پاک میں ملتی ہے کہ کہیں بھی مردوں کا ذکر آیا ہے وہاں عورتوں کا ذکر بھی ہے۔ مثلاً سورۃ احزاب کی پینتیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

’’بے شک نیک کام کرنے والے مرد اور نیک کام کرنے والی عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور خشوع کرنے والے مر د اور خشوع کرنے  والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مر د اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘

ماں کی محبت

’’ہم نے رحم مادر میں حسین تصویریں بنائیں۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت ۶)

یعنی ماں کے پیٹ کے اندر ایک ایسی ڈائی فٹ کر دی کہ اس میں ماں کے خون سے خوبصورت تصویر (بچہ) بنی۔ اس کے علاوہ اس حدیث مبارک سے بھی ماں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ

’’عورت اور مرد دونوں ’’نفس واحدہ‘‘ سے تخلیق کئے گئے ہیں۔‘‘(سورۃ اعراف۔ آیت ۱۸۹)

انسان اپنے اعمال ہی کی وجہ سے ولی اور شیطان بن جاتا ہے۔ مردوں کی برتری ثابت کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں پر وحی نہیں ہوئی لیکن اگر غور کیا جائے اور لفظ وحی کی تشریح کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وحی تو بی بی مریم ؑ پر بھی نازل ہوئی ہے۔ جب فرشتے نے انہیں آ کر کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تمہارے یہاں بیٹا پیدا ہو۔‘‘

حضرت بی بی ہاجرہؓ بھی ایک عورت تھیں اور ان کے دوڑنے کے عمل کو تاقیامت حاجیوں کیلئے فرض کر دیا گیا کہ جب تک حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کرینگے ان کا حج پورا نہیں ہوتا۔ اسی طرح خواتین کے قصے قرآن پاک میں موجود ہیں۔ المختصر یہ کہ ہر اچھے عمل کی جزا اور ہر برے عمل کی سزا عمل کرنے والے کو ملتی ہے اب چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

خواتین کے پیچھے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ خواتین نے اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے خواتین کو کتنے حقوق عطا فرمائے ہیں۔ اب خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا سیکھ لیا ہے تو اس وقت کئی خواتین مختلف ممالک کی وزرائے اعظم ہیں۔ بہت سے گھر ایسے ہیں جہاں شوہروں کے مقابلے میں بیویاں زیادہ پڑھی لکھی اور ہنر مند ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اتوار ۱۷ اپریل مراقبہ ہال حیدر آباد میں عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ عید ملن پارٹی کے شرکاء سے قرآن میں تفکر کے موضوع پر عظیمی صاحب نے فرمایا:

’’یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے بنائی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی ضرورت کی تمام اشیاء اس دنیا میں پہلے سے موجود ہوتی ہیں اور اس کی غذا کا انتظام بھی پہلے سے اس کی ماں کے دودھ کے ذریعے کر دیا جاتا ہے۔ جب انسان اس دنیا کو چھوڑتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاتا بلکہ یہ دنیا وہ دوسرے آنے والے یا پیدا ہونے والے بچے کے لئے چھوڑ جاتا ہے۔‘‘

حضرت عظیمی صاحب نے مزید بتایا کہ

’’جب تک انسان اپنی روزی کی فکر نہیں کرتا اسے اللہ تعالیٰ فکر مند کئے بغیر کھلاتا بھی ہے، پہناتا بھی ہے اور پڑھاتا بھی ہے۔ لیکن جیسے ہی ایک بچہ سن شعور کو پہنچ کر سوچتا ہے کہ مجھے معاش کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے تو وہ خود اپنے لئے فکر اور پریشانی کی راہیں کھولتا ہے حالانکہ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس سے پہلے اس کی تمام ضروریات کیسے پوری ہوتی تھیں۔‘‘

کوشش اور معاش کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا اس لئے ضروری ہے کہ یہ عمل وظیفۂ اعضاء ہے۔ انسان کی ساخت اس طرح ہے کہ اس کے اعضاء اور اعصاب مسلسل حرکت چاہتے ہیں۔

تجربہ شاہد ہے کہ بچے چھ ماہ کی عمر سے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، بار بار گرتے ہیں، اٹھتے ہیں، پھر گرتے ہیں، اس عمل میں مسلسل حرکت میں رہتے ہیں۔ گھٹنوں سے چلتے ہیں، کھڑے ہوتے ہیں، گرتے ہیں، پھر کھڑے ہوتے ہیں، پھر گرتے ہیں اور اس طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سہارے سے چلتے ہیں اور بچوں کو چلانے کے لئے بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں تا کہ وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو جائیں جیسے کہ گڈیلا وغیرہ۔

بچہ تقریباً دو سال کا ہو جاتا ہے تو مسلسل چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ گرتا ہے، اٹھتا ہے اور پھر چلتا ہے، اس طرح وہ بچپن سے نکل کر لڑکپن میں داخل ہو جاتا ہے۔ لڑکپن میں بھی زمین پر چلنے کی مشقت جاری رہتی ہے لیکن بچہ اس کو مشقت نہیں سمجھتا۔ بڑا ہو کر اسکول جاتا ہے۔ اسکول کی لائف میں اعصاب اور زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔ کالج کے ماحول سے روشناس ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک باشعور آدمی بن جاتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ پیدائش کے بعد سے ۲۰ سال کی عمر تک بچہ کی زندگی مسلسل حرکت اور جدوجہد ہے اور اس حرکت اور جدوجہد کے نتیجے میں بچہ باشعور اور صاحب عقل و فہم بن جاتا ہے۔ اس ساری روداد کا مفہوم یہ ہے کہ’’انسانی زندگی مسلسل حرکت کا نام ہے۔ حرکت نہیں ہو گی بچے کے اعضاء صحتمند نہیں ہونگے اور بچہ دس سال کی عمر میں بھی پالنے میں رہنے والا بچہ شمار ہو گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ آدمی حرکت میں رہے۔ اس لئے کہ ساری کائنات حرکت اور مسلسل حرکت ہے۔ رزق کے حصول کے لئے محنت اور جدوجہد کرنا اس لئے ضروری ہے کہ حرکت کے بغیر اعضاء مضبوط اور متحرک نہیں رہتے۔ رزق کی تلاش ہر مخلوق کرتی ہے۔ چوپائے، چرند پرند، حشرات الارض سب محنت کرتے ہیں اور اس محنت کے نتیجے میں ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوتی رہتی ہے۔

حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانیؒ 

انسان کے اختیارات اور اس کے اشرف المخلوقات ہونے کے بارے میں خواجہ صاحب نے حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ کے قصے سے مثال دے کر سمجھایا کہ کس طرح فرشتے انسان کے لئے مسخر ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ اپنے گھر میں موجود تھے کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ ان کے صاحب زادے نے کھولا۔ دیکھا تو باہر ایک بزرگ کھڑے تھے۔ بزرگ نے ایک رقعہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ اپنے والد صاحب کو دے دو۔ چنانچہ انہوں نے وہ رقعہ لے کر والد محترم کو دے دیا۔ ان کے والد نے اسے کھول کر پڑھا اور بیٹے سے فرمایا کہ ان سے عرض کرو کہ آدھے گھنٹے بعد آئیں۔ بیٹے نے جا کر بزرگ کو اپنے والد کا پیغام پہنچا دیا۔ ہوا یوں کہ آدھے گھنٹے تک ان کے والد نے مختلف ضروری کام کاج کئے اور پھر ان کا انتقال ہو گیا۔ تجہیز و تکفین کے بعد حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ کے بیٹے کو اس خط کا خیال آیا جو بزرگ نے دیا تھا۔

صاحب زادے نے اپنے والد کے تکیے کے نیچے سے وہ رقعہ نکال کر پڑھا، اس میں لکھا تھا کہ

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد فرمایا ہے، میرے لئے کیا حکم ہے؟‘‘

عزرائیل(ملک الموت)

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔