Topics

کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالی۔۔۔

ہم جانتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے لئے ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھنا شرط اول ہے۔

’’نہیں کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے محمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘

کوئی معبود نہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں معبود کا جو تصور ہے۔ ہم اس کی نفی کرتے ہیں جب تک ہم اپنے بنائے ہوئے معبودوں کی نفی نہیں کریں گے ایک اللہ پر ہمارے یقین کی تکمیل نہیں ہو گی۔

روحانی طلباء و طالبات کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جب تک پیغمبرانہ طرز فکر اختیار نہیں کی جائے گی کوئی طالب علم روحانی علوم نہیں سیکھ سکتا۔

اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے ہمیں سعید روحوں میں شامل کیا ہے۔ آپ حضرات و خواتین دور دراز علاقوں سے تشریف لائے ہیں۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں اور غیر ممالک سے سفر کر کے آنا۔ راتوں کو جاگنا، سردی میں بیٹھنا، گھر سے بے گھر ہونا صرف اس لئے کہ ہماری روح چاہتی ہے کہ اسے خالق کائنات کا عرفان حاصل ہو۔

تین کمزوریاں

حضور قلندر بابا اولیاءؒ کا ارشاد ہے۔۔۔

انسان کے اندر تین بنیادی کمزوریاں ہیں۔ اگر ان تین بنیادی کمزوریوں پر غلبہ حاصل کر لیا جائے تو بندہ کے لئے روحانی علوم سیکھنا آسان عمل بن جاتا ہے۔ تین کمزوریاں کیا ہیں؟

نمبر1

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔

غصہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے اور غصہ انسان کو اس وقت آتا ہے جب اس کے اندر اقتدار کی خواہش ہوتی ہے۔ اس کے اندر کبر ہوتا ہے اس کے اندر انا ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ انسان اگر غصہ پر کنٹرول حاصل کر لے تو اس کے لئے راستہ کھل جاتا ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔۔۔

مرشد اپنے تصرف سے مرید کو دھو کر صاف کر کے اس کے اندر روشنیاں منتقل کرتا ہے۔ مرید اگر ایک منٹ کا غصہ کرے تو تین سال کی روشنیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اور مرشد کے لئے سب سے مشکل کام یہ ہے کہ وہ بار بار مرید کے اندر کی کثافت کو دھو کر روشنیاں منتقل کرتا رہتا ہے اور مرید ایک منٹ کے غصے سے ان روشنیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ مرید روشنیاں ضائع کرنے سے نہیں تھکتا۔ مرشد روشنیاں ذخیرہ کرنے سے نہیں تھکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے تو کام آسان ہو جاتا ہے ورنہ اسی صفائی ستھرائی میں مرشد پردہ کر لیتا ہے یا مرید مر جاتا ہے۔ ایک منٹ کا غصہ تین سال کی روشنیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔

’’جو لوگ غصہ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت ۱۳۴)

صورتحال یہ ہے کہ شوہر بیوی پر غصہ کرتا ہے، بیوی شوہر پر غصہ کرتی ہے، اولاد ماں باپ سے ناراض ہے اور ماں باپ اولاد سے ناخوش ہیں۔

نمبر2

دوسری کمزوری جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے اور روحانیت کے لئے ناپسندیدہ امر ہے وہ اقتدار کی خواہش ہے۔ ہر آدمی اقتدار چاہتا ہے۔ اقتدار کا خواہش مند آدمی روحانی نہیں ہوتا۔

نمبر3

انسان کی تیسری کمزوری جنسی غلبہ ہے۔ اگر سالک مرد یا خاتون کے اوپر جنس کا غلبہ ہو جائے یعنی وہ اعتدال سے ہٹ جائے تو وہ روحانی سفر نہیں کر سکتا۔

عفو و درگذر

حضرت علیؓ کی    ایک غیر   مسلم سے لڑائی ہو گئی۔  حضرت علیؓ نے  اسے  چت  کر دیا اور اس کے سینے  پر بیٹھ کر سر قلم کرنا چاہتے تھےکہ نعوذ باللہ اس نے حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔

حضرت علیؓ اسے چھوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ اس نے کہا۔ آپ کو مجھے قتل کر دینا چاہئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ’’نہیں پہلے لڑائی اللہ تعالیٰ کے لئے تھی۔ اب جب تو نے تھوک دیا تو مجھے غصہ آ گیا اب میں قتل نہیں کروں گا تو یہاں سے چلا جا۔‘‘ یہ سن کر وہ آدمی مسلمان ہو گیا۔

عام معافی

ہندہ نے رسول اللہﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا۔ جب ہندہ نے اسلام قبول کر لیا تو اسے حضورﷺ نے معاف کر دیا۔ مکہ میں حضورﷺ کو اذیتیں دی گئیں۔ راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی رکھی گئی۔ بائیکاٹ کیا گیا لیکن جب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے حضورﷺ داخل ہوئے تو تاریخ لرزہ براندام ہے کہ یہ کیسی فتح ہے کہ زمین پر ایک خون کا قطرہ نہیں گرا۔ سب کو معاف فرما دیا۔ جو خانہ کعبہ کے اندر ہے اس کو معاف، جس نے گھر کا دروازہ بند کر لیا معاف، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے امان ہے۔ ستم یہ ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کی امت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے سب کو معاف فرما دیا معافی ہی معافی ہے رحمت ہی رحمت ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں بات بات پر غصہ نہ کیا جاتا ہو۔ روحانی آدمی کیلئے ضروری ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو غصہ پر کنٹرول کرے اور اس کے اندر اقتدار کی خواہش نہ ہو۔

اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مقام عطا ہو جائے تو اسے اپنا حق نہ سمجھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے اخلاق ایسا ہونا چاہے کہ لوگ آپ کو دیکھ کر آپ کے رویہ سے متاثر ہو کر اپنا اخلاق سنواریں۔ جب اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر کوئی آدمی ارادہ کرتا ہے، عمل کرتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔

’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقیناً اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔‘‘(سورۃ العنکبوت۔ آیت ۶۹)

جو لوگ الٰہی نظام میں خود کو شامل کرنے کے لئے عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت بخشتا ہے اور ان کے لئے راستے کھول دیتا ہے اور وسائل فراہم کرتا ہے۔ کوشش کریں جدوجہد کریں اور ان تین باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ غصہ نہیں کرنا ہے، اقتدار کی خواہش نہیں رکھنی ہے اور اعتدال کی زندگی گزارنی ہے۔

توازن

اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اعتدال اور توازن سے زندگی گزارتے ہیں۔

’’اور وہ یہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچ کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیاہ نہ کم۔‘‘(سوۃ الفرقان۔ آیت ۶۷)

اعتدال اور توازن یہ ہے کہ آپ کا ضمیر مطمئن ہو۔ جو آپ اپنے لئے چاہیں وہ اپنے بھائیوں کے لئے بھی چاہیں۔ آپ کے اندر خودنمائی نہ ہو۔ آپ کے اندر کبر نہ ہو۔ دین و دنیا متوازن رکھیں۔ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتے کہ آپ کھانا نہ کھائیں، کپڑے نہ پہنیں، گھر نہ بنائیں، اگر آدمی کھانا نہیں کھائے گا، کپڑے نہیں پہنے گا، گھر نہیں بنائے گا تو معاشی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے روئی اس لئے پیدا کی ہے کہ لوگ کپڑے پہنیں۔ اللہ تعالیٰ نے ریشم اس لئے بنایا ہے کہ لوگ استعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اون اس لئے پیدا کی ہے کہ آپ اس سے اپنا بہترین لباس بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر وسائل اس لئے پھیلائے ہیں کہ آپ اس سے آرام حاصل کریں۔ وسائل کو استعمال نہ کرنا ناشکری ہے اور کفران نعمت ہے۔

شکر کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’ہم نے حضرت لقمان ؑ کو حکمت دی تا کہ وہ ہمارا شکر (استعمال) ادا کرے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت۱۲)

اگر حضرت لقمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت پر ہزار دانے کی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے اور یہ ورد کرتے۔ یا اللہ تعالیٰ تیرا شکر ہے یا اللہ  تعالیٰ تیرا شکر ہے، یا اللہ تعالیٰ  تیرا شکر ہے، کیا انعام و اکرام اور حکمت کا تقاضہ پورا ہو جاتا؟

اصل بات یہ ہے کہ جو نعمت آپ کو حاصل ہے۔ آپ اس کو استعمال کریں۔ ہم نے حضرت لقمان علیہ السلام کو حکمت دی تا کہ وہ اسے شکر (استعمال) کرے (اپنے لئے اور لوگوں کے لئے)۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی حکمت کو استعمال کیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔

ہم اس لئے عطا کرتے ہیں کہ لوگ شکر (استعمال) کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو استعمال نہیں کرتے وہ کفران نعمت کرتے ہیں۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ۔۔۔

اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کو اس طرح استعمال کرو کہ ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو۔

اگر آپ دنیا بیزار ہو جائیں گے۔ کاروبار نہیں کریں گے تو دنیا اندھیر ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ انسان انہیں بھرپور طریقے سے استعمال کرے۔ لیکن ذہن میں یہ بات راسخ ہو کہ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔ ہماری ملکیت نہیں ہے۔ اصل مالک و خالق اللہ تعالیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی جو بھی نعمت آپ استعمال کرتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں۔

تین باتیں میں نے عرض کی ہیں۔

اقتدار کی خواہش اعتدال کی زندگی جو کچھ آپ کو میسر ہے اسے خوش ہو کر استعمال کریں۔ ذہن میں بار بار اس بات کو دہرائیں کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہے۔

انسان روحانی ترقی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک وہ محدود شعور میں بند رہتا ہے، روحانیت لامحدود علم ہے۔ لامحدود چیز حاصل کرنے کیلئے آپ کو محدودیت کا غلبہ ختم کرنا ہو گا۔ جب تک محدودیت کے دائرے سے باہر قدم نہیں نکالیں گے آپ لامحدود دائرے میں داخل نہیں ہو سکتے۔

روحانی طالب علم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کی فکر محدود نہ ہو۔ وہ شعوری اعتبار سے سونے چاندی کے ذخیروں میں گم نہ ہو جائے۔ انسان دنیا کو اپنا مقصد نہ بنائے۔ اتنا گمراہ نہ ہو جائے کہ شداد و نمرود اور فراعین کے اوصاف اس کے اندر داخل ہو جائیں۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے لامحدود بنایا ہے۔ روح جس کے اوپر زندگی رواں دواں ہے، لامحدود ہے اور مادی وجود محدود ہے۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔