Topics

صبح بہاراں ۔ لیکچر نمبر۔1زندگی مسافر خانہ ہے

عظیمیہ جامع مسجد میں فجر کی نماز کے بعد مراقبہ ہوتا ہے

حضرت عظیمی صاحب مراقبہ کے بعد لیکچر ڈیلیور کرتے تھے

فروری ۲۰۰۱ ؁ء میں یہ سلسلہ شروع ہوا اور مئی ۲۰۰۱ ؁ء تک جاری رہا

لیکچر نمبر 1

زندگی مسافر خانہ ہے

مورخہ 25فروری 2001 ؁ء بروز اتوار


حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے۔۔۔

’’دنیا مسافر خانہ ہے۔‘‘

مسافر خانہ میں جب قیام کرتے ہیں تو سامان ساتھ نہیں لے جاتے۔ سفر ختم ہوا مسافر خانہ سے باہر آ گئے۔ کچھ ساتھ نہیں لائے تھے کچھ ساتھ نہیں لے گئے۔ مسافر خانہ میں آرام کی ساری چیزیں موجود تھیں اگر کوئی چیز موجود نہیں تھی تو اس کی فکر نہیں کی۔ کیونکہ مسافرخانہ میں چند روز رہنا ہے۔ جس طرح مسافر ، مسافر خانہ میں رہتا ہے اور وہاں سے چلا آتا ہے اسی طرح انسان دنیا میں مہمان بن کر آتا ہے اور بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا گزار کر چلا جاتا ہے۔

مسافرخانہ میں مسافر کہیں سے آتا ہے اور مسافر خانہ چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ یہی حال دنیا کا ہے ہم نہیں جانتے ہم کہاں سے آئے ہیں اور نہیں جانتے کہاں چلے جائیں گے۔ پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں۔ آدمی عالم ارواح سے آتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز گزار کر عالم اعراف میں چلا جاتا ہے۔

ہمیں یہ معلوم نہیں کہ عالم ارواح کیا ہے؟ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ عالم اعراف کیا ہے؟

جب آدمی سفر میں ہوتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے پاس کم سے کم سامان ہو۔ سامان جتنا کم ہو گا سفر اتنا آرام سے گزرے گا۔ آدمی اچھے ہوٹل میں اس لئے ٹھہرتا ہے کہ وہاں پہلے سے سامان موجود ہوتا ہے۔ وہ راحت و آرام کیلئے ہوٹل کی سب چیزیں استعمال کرتا ہے مگر جب ہوٹل چھوڑتا ہے تو سامان ساتھ نہیں لے جاتا اور اسے سامان ساتھ نہ لے جانے کا افسوس بھی نہیں ہوتا۔

ہم فرض کرتے ہیں کہ ہمارا دماغ ایک کمرہ ہے۔ کمرہ کافی کشادہ اور ہوا دار ہے۔ کمرہ میں ایک چارپائی ہے اس پر آرام دہ بستر بچھا ہوا ہے، اس کے علاوہ چند چیزیں ہیں مثلاً گرمی سے بچنے کیلئے ایک پنکھا ہے، چھوٹی سی ایک میز ہے، میز پر ضروری چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کمرہ میں ایک آدمی سوتا ہے اور صبح بیدار ہو جاتا ہے۔

اس کے برعکس ایک اور کمرہ ہے اور اس میں ایک تخت ہے۔ اس پر بستر بچھا ہوا ہے، ایک میز، ایک کرسی، ایک پنکھا، ایک بڑا قالین، بڑے قالین کے اوپر نہایت خوبصورت ایک چھوٹا قالین ہے، دو گاؤ تکیہ ہیں، ریڈیو ہے، ٹی وی ہے، DVDپلیئر ہے، ٹیلیفون ہے، الماری ہے، الماری میں کپڑے ہیں، چار پانچ جوڑی جوتے ہیں، الماری میں جیولری ہے، سو سو کے نوٹ ہیں، ایک چھوٹا فریج ہے، گھڑی ہے، دیوار پر آپ کا، بیگم کا اور بچوں کا فیملی فوٹو آویزاں ہے۔ آپ اس کمرے میں سوتے ہیں۔

اس سے بالکل الٹ جہاں صرف ایک تخت ہے اور اس کے اوپر بستر ہے۔ بستر کے اوپر دو تکیے ہیں۔ زمین پر چٹائی بچھی ہوئی ہے۔

آپ کیا سمجھے یہ کہانی کیا ہے؟

ایک آدمی خالی کمرہ میں سوتا ہے دوسرا آدمی کمرہ میں موجود پندرہ بیس چیزوں کے درمیان سوتا ہے۔آپ جب سو جاتے ہیں تو یہ سب چیزیں بظاہر آپ کو نظر نہیں آتیں لیکن ان چیزوں کا عکس آپ کے دماغ پر پڑتا رہتا ہے جب کمرہ میں بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں تو الجھی ہوئے خواب نظر آتے ہیں۔ جب کمرہ میں چیزیں نہیں ہوتیں چونکہ چیزوں کا عکس دماغ پر نہیں پڑتا اس لئے دماغ ہلکا رہتا ہے۔ نیند اچھی آتی ہے۔

آپ کہیں گے کہ زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ سب چیزیں موجود ہوں لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ کمرہ میں موجود ہر چیز کا عکس آپ کے دماغ پر پڑتا ہے، اس لئے آدمی بھاری پن محسوس کرتا ہے اور اس کمرہ میں جہاں سامان کم ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں ہے تو آدمی بھاری پن محسوس نہیں کرتا اور کمرہ میں نیند اچھی آتی ہے۔

قانون

یہ دنیا اور دنیا کی ہر شئے اپنا وجود رکھتی ہے۔ وجود نہیں ہو گا تو شئے نہیں ہو گی۔ شئے کی موجودگی یہ ہے کہ ہر شئے کا عکس دماغ پر پڑتا ہے۔ اگر شئے کا عکس دماغ پر نہ پڑے اور ذہن اس عکس کو قبول نہ کرے اور حافظہ اس شئے کو یاد نہ رکھے تو آدمی کیلئے یہ شئے عدم موجود ہو جائے گی۔

آدمی جب پیدا ہوتا ہے اس کے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے دنیا کی چیزوں کا عکس اس کے حافظہ میں محفوظ ہوتا رہتا ہے اور جب وہ جوان ہوتا ہے دنیا کا پورا ریکارڈ اس کے حافظہ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

آپ قریبی دوست کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس ایک کمرہ ہے۔ وہ سامان سے بھرا ہوا ہے اور اس میں دوسرے آدمی کے لئے جگہ نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس دوست کو کہاں رکھیں گے؟ کہاں سلائیں گے؟ اسے کیسے راحت و آرام پہنچائیں گے؟

اس کے برعکس ایک کمرہ ہے اس میں ایک پلنگ ہے، باقی جگہ خالی ہے۔ آپ کا دوست اس کمرہ میں آرام سے رہے گا اور اسے سکون ملے گا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ زندگی گزارنے کے لئے سامان ضروری نہیں ہے۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ سامان کمرہ میں اتنا نہ ہو کہ کمرہ کباڑ خانہ بن جائے۔ دنیا روٹین میں گزاری جائے تو دماغ ہلکا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق دل میں جگہ موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ہمارے لئے بنائی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے لئے بنے ہیں۔


آپ کا دوست آپ کو قیمتی گھڑی امانتاً دیتا ہے۔ وہ جب چاہے وہ آپ سے لے سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آپ گھڑی سے محبت کرتے ہیں، گھڑی میں آپ کی جان اٹکی ہوئی ہے اور جس نے آپ کو گھڑی دی ہے اس کی طرف آپ کا ذہن ہی نہیں جاتا۔ ایسے شخص کے بارے میں آپ یقیناً یہی کہیں گے کہ یہ شخص ناشکرا اور احسان فراموش ہے۔ میں ایک فقیر بندہ ہوں۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ دنیا کی ساری چیزیں استعمال کریں لیکن دنیا میں دل نہ لگائیں۔ خیال رکھیں کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بنائی ہے۔

ہماری صورت یہ ہے کہ ہم دنیا کی ہر شئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بڑی سے بڑی قیمت لگا دیتے ہیں جس نے یہ نعمت عطا کی ہے اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔

میرے بچو! میرے بزرگو! دل میں دنیا کی بجائے اللہ تعالیٰ کو بسایئے۔ جب دل میں اللہ تعالیٰ بس جاتا ہے تو دنیا بہت چھوٹی ہو جاتی ہے اور بندہ کے سامنے کائنات سرنگوں ہو جاتی ہے۔


Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔