Topics

لیکچر12 ۔ قربت

مورخہ 14مارچ 2001 ؁ء بروز بدھ

مخلوقات کی تعداد ساڑھے گیارہ ہزار ہے۔ ہر مخلوق یہ شعور رکھتی ہے کہ وہ کون ہے؟ اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ زندگی کے تقاضے کیا ہیں اور انہیں کیسے پورا کیا جا سکتا ہے۔ مخلوق گھر بھی بناتی ہے اور ایسے گھر بناتی ہے جو عجوبۂ روزگار ہیں۔ مثلاً شہد کی مکھی جو چھتہ بناتی ہے وہ ہر طرح سے عجوبۂ روزگار ہے۔ پرندے گھونسلہ بناتے ہیں۔ زیر زمین رہنے والی مخلوق بل بناتی ہے۔ مخلوقات کا خاندان بھی ہے۔ وہ آپس میں کھیلتے کودتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور کبھی کبھی لڑتے بھی ہیں۔ گرمی سردی محسوس کرتے ہیں۔ پرندے اور چوپائے گرمی سے بچنے کیلئے نہاتے ہیں اور سردی سے بچنے کیلئے اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ جب زیادہ سردی ہو جاتی ہے تو پرندے اپنی چونچ کو پروں میں چھپا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور وہ سردی سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو عجیب و غریب ہوتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک واقعہ ہے۔۔۔

شیر کا ایک بچہ اپنی ماں سے بچھڑ گیا۔ وہاں سے ایک بکری کا گزر ہوا۔ بکری نے شیر کے بچے کو دیکھا تو اسے رحم آیا۔ بکری نے شیر کے بچے کو دودھ پلایا اور اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ شیر کے بچے کی عادتیں بکری کی طرح ہو گئیں۔ یہاں تک کہ وہ ایسی چیزیں کھانے لگا جو شیر نہیں کھاتا۔ شیر کا بچہ بکری کی آغوش میں بڑا ہو گیا۔

اتفاق سے ایک دن وہاں سے شیر کا گزر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ شیر کا بچہ گھاس کھا رہا ہے تو اسے بڑا غصہ آیا۔ شیر زور سے دھاڑا، آواز سن کر چوپائے بھاگ گئے، ان کے ساتھ شیر کا بچہ بھی بھاگ گیا۔

بالآخر شیر نے ایک جست لگائی اور شیر کے بچے کو پکڑ لیا۔ آس پاس جتنی بکریاں تھیں سب غائب ہو گئیں۔ شیر نے بچے کا کان پکڑا اور اسے دریا کے کنارے لے گیا اور شیر نے پانی میں شیر کے بچے کی تصویر دکھائی اور زور سے دھاڑا اور شیر کے بچے سے کہا کہ تو شیر ہے بکری نہیں ہے، پانی میں دیکھ۔

شیر کے بچے نے پانی میں اپنی تصویر دیکھی تو اسے نظر آیا کہ میں شیر کی طرح ہوں۔ شیر شیر کے بچے کو کان سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا۔ چند روز میں اس نے شیر کی عادتیں سیکھ لیں اور بکری کی عادتیں بھول گیا۔

میرے دوستو!

مرشد کریم کی بھی یہی مثال ہے۔ مرشد کریم مرید کی تربیت کرتا ہے۔ مرید کو پڑھاتا ہے، سکھاتا ہے، آئینہ میں صورت دکھاتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مرید بھاگ جاتا ہے وہ اس ماحول سے مانوس نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ دوسرے ماحول سے بھی مانوس نہیں ہوتا اس لئے واپس آ جاتا ہے۔ مرشد اسے پھر قبول کر لیتا ہے اور بالآخر مرید مرشد کریم کی طرز فکر اختیار کر لیتا ہے۔

غور کیا جائے تو آدمی بھی جانور کی طرح ہیں۔ جانوروں کی بھی الگ الگ شکلیں ہوتی ہیں، آدمیوں کی بھی شکل الگ الگ ہے۔ لیکن اچھے ماحول کےزیر اثر آدمی جانوروں سے ممتاز ہو کر انسان بن جاتا ہے۔

میرے دوستو!

ہم سب دیکھتے ہیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کومل، خوبصورت اور معصوم ہوتا ہے اور جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے اس کی صورت میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ ایک صورت وہ ہوتی ہے جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور ایک صورت وہ ہوتی ہے جو ماحول کے زیر اثر بنتی ہے۔

جو لوگ کتے سے محبت کرتے ہیں، اس کی خدمت کرتے ہیں، ہر طرح سے اس کا خیال رکھتے ہیں، بیمار ہو جائے تو اس کا علاج کراتے ہیں۔ اس کو صبح سویرے سیر کے لئے لے جاتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے اور آپ نے بھی ضرور دیکھا ہو گا اور اگر نہیں دیکھا تو اب غور کریں کہ کتوں سے محبت کرنے والے انسان میں کتوں کی شباہت آنے لگتی ہے۔ ہر آدمی کے اندر چار آنکھیں ہوتی ہیں۔ دو آنکھیں وہ ہیں جو ہر آدمی کی پیشانی کے نیچے ہیں اور دو آنکھیں وہ ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں اور نظر اس لئے نہیں آتیں کہ ہم نے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔

جب بندہ روح کی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو اسے وہ شکل نظر آتی ہے جو نور سے بنی ہے اور جب وہ باہر کی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو اسے وہ آنکھ نظر آتی ہے جو ماحول کے زیر اثر بنی ہے۔ مرشد مرید کو اندر کی آنکھ کا مشاہدہ کرا دیتا ہے۔ اندر جو آنکھ دیکھتی ہے وہ زمان ومکان سے گزر جاتی ہے اور باہر جو آنکھ دیکھتی ہے وہ مکان (Space) میں قید رہتی ہے۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔