Topics
(ADMINISTRATION)
قصہ ایک جلیل القدر پیغمبر اور ایک بندے کا جس کو قرآن پاک نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اس قصہ میں شریعت اور تکوین کے اسرار پنہاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو تفکر سے کام لیتے ہیں۔
تخلیق کا قانون
انسان بحیثیت آدم اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے اور بحیثیت نائب اور خلیفہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی روح کام کر رہی ہے، روح امر رب ہے اور امر رب کائنات کی تخلیق میں عمل کرنے والا قانون ہے، یا اللہ تعالیٰ کے وہ اختیارات ہیں جن سے کائنات تخلیق کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آدم کو تخلیقی اختیارات تفویض کر دیئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ احسن الخالقین ہے، آدم اپنے تخلیقی اختیارات کا استعمال صرف ان ہی اشیاء میں کر سکتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت تخلیق ہو چکی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ ہر لمحہ اور ہر آن نئی تخلیق وجود میں لے آئیں۔
تکوین
آدم کی نیابت و خلافت کی نشان دہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں کی گئی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے اجتماع میں تقریر کر رہے تھے کہ کسی شخص نے سوال کیا۔
’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول اس زمانے میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’مجھے اس سرزمین پر سب سے زیادہ علم دیا گیا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’تمہارا منصب یہ تھا کہ تم اس سوال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جہاں دو سمندر ملتے ہیں وہاں ہمارا ایک بندہ ہے جو علم میں تجھ سے زیادہ دانا و بینا ہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا۔
’’پروردگار عالم! تیرے اس بندے تک رسائی کا کیا طریقہ ہے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’مچھلی کو اپنے توشہ دان میں رکھ لے جس مقام پر وہ غائب ہو جائے اسی جگہ وہ شخص ملے گا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام مچھلی کو توشہ دان میں رکھ کر اپنے خلیفہ یوشع بن نون کے ساتھ اس بندے کی تلاش میں روانہ ہو گئے۔ ایک مقام پر پہنچ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پتھر پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے۔ قدرت خدا سے مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی، مچھلی پانی میں جس جگہ تیرتی ہوئی گئی اور جہاں تک گئی وہاں پانی نے برف کی طرح منجمد ہو کر ایک پگڈنڈی کی شکل اختیار کر لی۔
یہ واقعہ یوشع نے دیکھ لیا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس کا تذکرہ کرنا بھول گئے، بیدار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی یوشع بن نون نے پھر سفر شروع کر دیا۔
دوسرے دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تکان محسوس کی اور فرمایا:
’’اے یوشع! مچھلی لے آ تا کہ کچھ کھا پی کر تکان دور کر لی جائے۔‘‘
یوشع نے کہا:
’’یا کلیم اللہ! میں یہ بات آپ کو بتانا بھول گیا کہ جس وقت آپ سو رہے تھے، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مچھلی میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے اور وہ سمندر میں چلی گئی اور جیسے جیسے وہ آگے بڑھتی رہی سمندر میں راستہ بنتا رہا۔‘‘
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا تھا کہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ بن گئی ہو۔‘‘
آگے جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا۔
’’لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں ہم تھک گئے ہیں۔‘‘
خادم نے عرض کیا۔
’’آپ نے دیکھا یہ کیا ہوا؟ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اس وقت مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’اسی جگہ کی ہمیں تلاش تھی۔‘‘
چنانچہ وہ دونوں واپس ہوئے۔
’’اور وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔‘‘(سورۃ الکہف۔ آیت ۶۰ تا ۶۵)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس بندہ سے فرمایا کہ
اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے ساتھ رہ کر وہ علم سیکھوں جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے۔
اس بندہ نے کہا کہ آپ میرے ساتھ نہیں ٹھہر سکیں گے اور ٹھہر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ اس علم کا سمجھنا آپ کی فہم سے باہر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ انشاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے اور میں آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گا۔
اس بندے نے کہا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کسی بات کے بارے میں مجھ سے اس وقت تک سوال نہ کریں جب تک کہ میں خود آپ کو نہ بتا دوں، اس عہد و پیمان کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کا وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی علم عطا فرمایا تھا دونوں چل پڑے یہاں تک کہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے بندے نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔
آپ نے کس قدر عجیب اور انوکھی بات کی ہے کہ کشتی میں سوراخ کر دیا تا کہ اس میں بیٹھے ہوئے لوگ ڈوب جائیں۔
اس بندے نے کہا۔ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، میری بھول پر مواخذہ نہ کیجئے اورمیرے معاملے میں سخت گیری سے کام نہ لیجئے۔
اس بندے نے درگزر کر دیا اور پھر دونوں چل پڑے یہاں تک کہ ملاقات ہوئی ایک لڑکے سے جس کو اس بندہ خدا نے مار ڈالا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا اور فرمایا!
یہ آپ نے کس قدر نامعقول بات کی ہے آپ نے قتل کر دیا ایک جان کو جس نے کوئی قتل نہیں کیا یعنی آپ نے بغیر قصاص کے ایک جان ضائع کر دی۔
اللہ تعالیٰ کے بندے نے کہا۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ آپ میری باتوں پر صبر نہیں کر سکیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ اگر اس کے بعد میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو پھر آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا۔
اس بندے نے درگزر سے کام لیا اور دونوں چل پڑے یہاں تک کہ پہنچے ایک گاؤں میں وہاں کچھ کھانا چاہا مگر گاؤں والوں نے ان کو کھانا نہیں دیا۔ وہاں اللہ تعالیٰ کے بندے نے ایک دیوار کو بنا دیا جو گر رہی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا!
اگر آپ چاہتے تو مزدوری لے سکتے تھے (یعنی ہم اس بستی میں بھوکے اور بطور مسافر داخل ہوئے مگر بستی والوں نے ہمیں نہ ٹھہرنے کو جگہ دی اور نہ ہمیں کھانا دیا۔ آپ نے اجرت لئے بغیر دیوار بنا دی۔ اگر اجرت طے کر لیتے تو کھانے پینے کا انتظام ہو جاتا۔)
اس بندے نے کہا۔
اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے، ہاں جن باتوں پر آپ صبر نہیں کر سکے آپ کو ان کی حقیقت بتا دیتا ہوں۔
سب سے پہلے کشتی کا معاملہ درپیش ہوا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کشتی چند مسکینوں کی تھی اور اس کشتی پر ان کی معاش کا انحصار ہے۔ کشتی والے جس طرف بڑھ رہے تھے اطراف میں ایک بادشاہ ہے جب وہ کوئی نئی اور اچھی کشتی دیکھتا ہے تو اس پر قبضہ کر لیتا ہے، میں نے اس میں سوراخ اس لئے کر دیا کہ کشتی میں عیب دیکھ کر بادشاہ اس پر قبضہ نہ کرے۔
اور لڑکے کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے ماں باپ راست باز اور مومن ہیں، میں ڈرا کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر اللہ تعالیٰ سے سرکشی کر کے اپنے والدین کے لئے اذیت اور تکلیف کا سبب بنے گا۔ پس میں نے ارادہ کیا کہ پروردگار اس لڑکے سے بہتر لڑکا انہیں عطا کرے جو اللہ تعالیٰ کا پرستار اور رحم کرنے والا ہو۔
دیوار درست کرنے میں یہ راز ہے کہ وہ جگہ یتیم لڑکوں کی ہے، جس کے نیچے خزانہ دفن ہے، ان بچوں کا باپ ایک مرد صالح تھا، پس پروردگار نے ارادہ کیا کہ دونوں لڑکے اپنی جوانی کو پہنچ کر اپنا خزانہ حاصل کر لیں۔ ان لڑکوں کے حال پر اللہ تعالیٰ کی یہ مہربانی تھی جو اس طرح ظہور میں آئی۔
اے موسیٰ! یاد رکھئے، میں نے یہ سب کچھ اپنی طرف سے نہیں کیا۔ یہ راز ہے ان باتوں کا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔
قرآن پاک کے بیان کردہ اس واقعہ سے عرفان نفس کی قدریں متعین ہوتی ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت رسول ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
’’ہم نے جو علم تم کو دیا ہے اس کے علاوہ اور بھی علم ہے جو تم کو نہیں دیا گیا۔‘‘
غور طلب بات یہ ہے کہ بندہ نہ رسول ہے اور نہ پیغمبر، وہ علم اللہ تعالیٰ نے اپنی عطائے خاص سے اسے عنایت فرمایا ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔