Topics
قرآن پاک کائنات کے تمام قوانین اور علوم کا سرچشمہ ہے۔ قرآن پاک کے مضامین معنویت کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔
ایک حصہ ان اصول و قوانین اور شریعت پر مشتمل ہے جو ایک فلاحی معاشرے کے لئے ضروری ہے اور اسی حصہ میں اخلاقی اقدار اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب بھی بیان کئے گئے ہیں۔
دوسرا حصہ تاریخ اور حالات تیسرا حصہ جو قرآن کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ان فارمولوں اور قوانین سے بحث کرتا ہے جن کے اوپر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔ اس حصہ میں موت کے بعد کی زندگی کے حالات بھی شامل ہیں اور اسی حصہ کو معاد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ کائناتی قوانین ناقابل تغیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق یہ ازل سے ایک ہیں اور ابد تک ایک ہی رہیں گے۔
قرآن پاک میں انہیں ’’فطرت اللہ‘‘ اور ’’اللہ تعالیٰ کا امر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت یا اللہ تعالیٰ کا امر ان قوانین اور فارمولوں کا مجموعہ ہے جن کے تحت ہر آن اور ہر لمحہ کائنات کو حیات نو مل رہی ہے۔ کائنات ایک مربوط اور منظم پروگرام ہے جس میں ’’اتفاق‘‘ کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سب کچھ ’’الٰہی قانون‘‘ کے تحت واقع ہوتا ہے۔
علماء باطن اور محققین نے پہلے دو حصوں پر تو توجہ دی ہے اور تیسرے حصے کی وضاحت اس لئے نہیں ہوئی کہ اس کو سمجھنے کے لئے شعوری مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ اس علم کا تعلق عقل و شعور کے ساتھ روحانی کیفیات سے ہے۔
روحانی علوم اس وقت حاصل ہوتے ہیں۔ جب طالب علم شعوری طور پر واردات و کیفیات سے آگاہ اور باخبر ہو۔ ورائے لاشعور (روحانی) علوم کو سمجھنے کے لئے یہ امر لازم ہے کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات اور زندگی کے ظاہری عوامل پر ضرب لگا کر دنیاوی دلچسپیاں کم سے کم کر دیں۔
قرآن پاک میں اس علم کو ’’کتاب کا علم‘‘ سے متعارف کرایا گیا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے درباریوں سے فرمایا:
’’میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی دربار میں آ جائے۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت۳۸)
عفریت نے کہا جو قوم جنات میں سے تھا۔۔۔
’’اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں یہ تخت لا سکتا ہوں۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۳۹)
جن کا دعویٰ سن کر ایک انسان نے کہا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔
’’اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے تخت دربار میں موجود ہو گا۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت ۴۰)
حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت دربار میں موجود تھا۔ حالانکہ یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً پندرہ سو میل ہے۔
کتاب کا یہ علم ان کائناتی قوانین اور فارمولوں پر قائم ہے جن پر کائنات چل رہی ہے۔ زمین کی گردش، آسمان سے پانی برسنا، نباتات کا اُگنا، زمین پر موجود حیوانات اور جمادات کی پیدائش اور موت، ان کی زندگی کی تحریکات، سیاروں کی گردشیں، ان میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں غرض کہ ہر حرکت قانون کی پابند ہے۔ یہی علم آدم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور خاص ودیعت ہوا ہے۔ جسے قرآن پاک میں ’’علم الاسماء‘‘ کہا گیا ہے اور اسی علم نے آدم کو فرشتوں پر فضیلت بخشی ہے۔ یہی علم مومن کی میراث ہے اس علم سے کوئی انسان جس کو اللہ تعالیٰ چاہے تسخیر کائنات کے فارمولوں سے واقف ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔