Topics
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جب ہم تفکر کرتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح سامنے
آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کے بغیر زندگی کے نقشے کو صحیح
ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ ہر مسلمان صحیح خطوط پر اپنی زندگی کو اس وقت ترتیب دے
سکتا ہے جب قرآن حکیم کے بیان کردہ مطالب اور مفہوم کو سمجھ کر اللہ کے ساتھ اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اپنی کلی زندگی میں سمو لے۔
قرآن
حکیم نے اطاعت رسول اور اطاعت اللہ کے لئے دو انداز اختیار کئے ہیں۔ خدا نے اپنی
طاعت کے ساتھ رسول اللہ کی اطاعت کو بھی ضروری ٹھہرایا ہے اور کہیں صرف رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و پیروی ہی کا ذکر کیا ہے۔
آیئے،
ان آیات کا مطالعہ کریں جن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اللہ کی
اطاعت ضروری ہے:
٭’’کہہ
دو کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم مانو۔ اگر نہ مانیں تو خدا بھی کافروں کو دوست
نہیں رکھتا۔‘‘ (آل عمران)
٭’’مومنو!
خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور اگر کسی بات میں اختلاف پیدا ہو تو اگر
خد اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسول اور اپنے اولی الامر
کے حکم کی طرف رجوع کرو۔‘‘ (النساء)
٭’’ایمان
والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سن رہے
ہو۔‘‘ (الانفال)
٭’’اور
خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ ایسا کرو گے تو بزدل
ہو جاؤ گے۔‘‘ (الانفال)
٭’’مومنو!
خدا کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرماں برداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے
دو۔‘‘ (محمد)
٭’’اور
خدا اور اس کے پیغمبر کی فرماں برداری کرتے رہو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے
با خبر ہے۔‘‘ (مجادلہ)
٭’’اور
خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم منہ پھیر لو گے تو ہمارے
پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا ہے۔‘‘ (التعابن)
یہ
وہ آیات مبارکہ ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کو
ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ کی پیروی کو یکساں ضروری قرار دیا
گیا ہے یعنی جس طرح خالق کائنات اللہ کی اطاعت ضروری ہے بالکل اسی طرح اللہ کے
فرستادہ بندے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ضروری ہے۔
آیئے!
اب ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کو
دین کی اساس اور بنیاد قرار دیا گیا ہے:
٭’’جو شخص رسول ﷺ کی پیروی کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی پیروی کی۔‘‘(النساء)
٭’’اور
ہم نے جو بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا
جائے۔‘‘ (النساء)
٭’’لوگوں
سے کہہ دیجئے اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ خدا تمہیں دوست رکھے
گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اللہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘ ( آل
عمران)
٭’’تو
جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہئے کہ ایسا نہ ہو ان پر کوئی
آفت آن پڑے یا تکلیف والا عذاب نازل ہو۔‘‘(النور)
٭’’آپ کے پروردگار کی قسم، یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں گے
اور جو آپ فیصلہ کر دیں اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے تسلیم کر
لیں، تب تک مومن نہیں ہونگے۔‘‘ (النساء)
آیات
مذکورہ سے جو نکات اور مفہوم واضح ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:
اطاعت
رسولﷺ امتی کے لئے اہم اساس ہے کہ اس سے انکار کفر کے برابر ہے۔
اللہ
کے رسولﷺ کی اطاعت رحمت الٰہی کا ذریعہ ہے۔
کسی
بھی مسئلہ میں اختلاف رائے کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا فیصلہ ہی آخری
فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اللہ
اور اس کے رسولﷺ پر ایمان کے تقاضے اسی وقت پورے ہو سکتے ہیں جب کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کو حرز جاں بنا لیا جائے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اللہ خداوند قدوس کی اطاعت ہے۔
ہر
پیغمبر اس لئے مبعوث ہوا ہے کہ لوگ اس کے نقش قدم پر چلیں۔
محبت
الٰہی صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
پیروی کی جائے۔
جو
لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کی مخالفت میں سرگرم ہیں ان کو اللہ کے
عذاب سے ڈرنا چاہئے۔
ایمان
اس وقت تک تکمیل پذیر نہیں ہوتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام و
اوامر کو پورے اخلاص سے تسلیم نہ کیا جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔