Topics
دوستی
ایسے لوگوں سے کیجئے جو انسانیت کے نقطۂ نظر سے دوستی کے لائق ہوں۔ جس طرح یہ
ضروری ہے کہ دوستی کے لئے صاحب دل لوگوں کا انتخاب کیا جائے اسی طرح یہ بھی ضروری
ہے کہ دوستی کو ہمیشہ ہمیشہ نبھانے اور قائم رکھنے کی کوشش کی جائے دوست ایک بے
تکلف ساتھی، خوش مزاج، ہم نشیں اور خوش طبع رفیق ہوتا ہے۔ حق دوستی یہ ہے کہ آپ
دوست سے دل بیزار نہ ہوں اور دوست آپ کی قربت کو باعث تسکین جانے۔
دوستوں
کے ساتھ ہنسی اور تفریح بھی انسانیت کی اقدار میں ایک اعلیٰ قدر ہے۔اچھے دوست
تفریح کے ساتھ ساتھ وقار، حمیت اور اعتدال بھی قائم رکھتے ہیں۔ آپ جس شخص سے محبت
کرتے ہیں اس سے کبھی کبھی اپنی محبت کا اظہار بھی کیجئے۔ اظہار محبت کا نفسیاتی
اثر یہ ہوتا ہے کہ دوست قریب ہو جاتا ہے اور دونوں طرف سے جذبات و احساسات کا
تبادلہ اخلاص و مروت میں غیر معمولی اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ اخلاص و محبت کے جذبات
سے دلی لگاؤ پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ لطیف و پاکیزہ جذبات عملی زندگی پر اثر انداز
ہوتے ہیں اور دوست آپس میں یک جان و دو قالب کی مثال بن جاتے ہیں۔ دوستانہ تعلقات
کو زیادہ سے زیادہ استوار اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے دوستوں
کی خدمت کریں۔
ہم
جب اللہ تعالیٰ کی صفات خالقیت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ
تعالیٰ کا سب سے بڑا وصف مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔
اب
کوئی بندہ نوع انسانی کو دوست سمجھ کر اس کی خدمت کو اپنا مشن بنا لیتا ہے تو اس
کے اوپر اللہ کی رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بالآخر کائنات اس کے آگے جھک
جاتی ہے۔ ہمارے اسلاف کا یہ معمول رہا ہے کہ انہوں نے اپنے سے چھوٹوں کو ہر اعتبار
سے زیادہ سے زیادہ اونچا اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اپنے دوستوں کے لئے وہی کچھ
پسند کیا ہے جو اپنے لئے پسند کیا۔
عام
لوگوں میں خدا کے نزدیک زیادہ محبوب وہ آدمی ہے جو انسانوں کو زیادہ سے زیادہ نفع
پہنچائے اور نفع پہنچانے والا کوئی بندہ بلا تخصیص مرد و عورت نوع انسانی کا دوست
ہوتا ہے۔
آیئے،
خدا سے یہ دعا کریں:
’’اے
خدا! ہمارے دلوں کو بغض و عناد، کبر و نخوت اور کدورتوں کے غبار سے دھو دے اور
تفرقہ کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے دلوں کو خلوص و محبت سے جوڑ دے اور ہمیں توفیق عطافرما
کہ ہم باہمی اتحاد و یگانگت کے ساتھ ایک مثالی روحانی معاشرہ قائم کر سکیں۔‘‘
قرآن پاک کی یہ دعا ورد زباں رکھیئے
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا
وَلِاِخْوَانِنَا الَّـذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِىْ
قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ
رَّحِـيْـمٌ (سورۂ
الحشر، آیت ۱۰)
اے
رب! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے اور
ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور کدورت نہ رہنے دے۔ اے ہمارے رب! تو بڑا
ہی مہربان اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔