Topics
’’یہ چوپائے اور اڑنے والے جانور تمہاری طرح امتیں ہیں۔۔۔‘‘
سورۂ
انعام ۳۸)
پرندوں،
چوپایوں اور حشرات الارض کو نزلہ زکام اور ملیریا نہیں ہوتا۔ انہیں کھانسی اور دق
سل جیسی بیماریاں نہیں ہوتیں۔ آج تک نہیں سنا گیا کہ کسی کبوتر یا چڑیا کو کینسر
ہوا ہو۔ یہ بھی نوع انسانی کے دانشوروں کے سامنے نہیں آئی کہ جنگل میں رہنے والے
چوپایے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوئے ہوں۔ اس بات کی بھی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ
کسی پرندے یا چرندے کے دل کے والو بند
ہوئے ہوں۔ جانوروں کی نوعوں میں بڑھاپے کے آثار بہت کم ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کے منہ
پوپلے نہیں ہوتے۔ ان کی آنکھوں پر عینک نہیں لگتی۔ وہ عمر طبعی تک چست اور پھرتیلے
رہتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا کی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس
لئے کہ اللہ کی یہ مخلوق اور انسانی شماریات سے کہیں زیادہ نوعیں اور ہر نوع کے بے
شمار افراد مناسب غذا کھاتے ہیں۔ ان کے ہاں کسی قسم کی غذائی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ ان
نوعوں کی زندگی میں براہ راست ورزش کا عمل دخل ہے۔ یہ سب نوعیں ایک نظام حیات کی
پابند ہیں۔ حالات کے مطابق یہ اپنا نظام حیات بھی بدلتے رہتے ہیں۔
’’کیا
تم دیکھتے نہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز آئین الٰہی پر عمل پیرا ہے اور پرندے
بھی ایک نظام کو نباہ رہے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور دستور العمل سے
آگاہ ہے۔‘‘ (سورۂ نور ۴۱)
وہ
پرندے اور چوپائے بدنصیب ہیں جو انسانی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں۔ انسان کی
پھیلائی ہوئی گندگی اور غلاظت سے متاثر ہو کر طرح طرح کی بماریوں میں مبتلا ہو
جاتے ہیں۔
انسان
جو خود کو اشرف المخلوقات کہتا ہے، اتنا غلیظ اور گندا ہے کہ بار بار تھوکتا ہے،
اپنے ارد گرد کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگائے رکھتا ہے۔ گھروں میں صفائی کا فقدان ہے تو
گلیوں میں تعفن کے طوفان اٹھتے رہتے ہیں۔ گفتگو کی جائے تو منہ سے بدبو آتی ہے۔
جسمانی اتصال ہو جائے تو پسینے کی بُو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ خشک چہرے اور خشک
بال اور بالوں کے اندر جوئیں اس کی نفاست اور طہارت سے بے پروائی کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔
اے
انسان جنگلی جانوروں کو دیکھ۔ ان کے گھونسلوں اور نشیمنوں میں کیسی صفائی پائی
جاتی ہے۔ بلی زمین میں گڑھا کھودتی ہے اور اپنا فضلا اس میں چھپا دیتی ہے۔ اللہ کی
مخلوق انسانی ماحول میں رہنے والی بلی ہمیں ہر روز صفائی اور طہارت کا سبق دیتی
ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے انسان میل کچیل اور غلاظت سے دور رہ۔‘‘ (سورۂ
مدثر)
زندہ
قوموں کی تعریف ہی یہ ہے کہ صفائی، نفاست، پاکیزگی ان کی زندگی کا ایک محرک عمل بن
جاتا ہے اور جن قوموں میں صفائی او طہارت نہیں ہوتی وہ پاکیزگی کے احساس سے ہی
محروم ہو جاتی ہیں۔ ان میں پرندوں کے پروں کا اُجلا پن، چوپایوں کے جسم کا حسن اور
آنکھوں میں کشش باقی نہیں رہتی۔ وہ گینڈے کی طرح بھدی، گدھ کی طرح غلیظ اور اُلّو
کی طرح بدحواس اور اونگھتی قوم بن جاتی ہے۔ اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے جسم کو لباس سے زینت دینے والے رسول اٹھ! قوم کو
غلاظت کے نتائج سے آگاہ کر، اللہ کی عظمت بیان کر، اُجلے کپڑے پہن اور ہر قسم کے
میل کچیل سے دور رہ۔‘‘ (سورۂ مدثر ۱۔۵)
ہماری
حالت یہ ہے کہ ہم صرف پانچ فرض احکام کی بجا آوری میں اپنی نجات سمجھتے ہیں۔ باقی
ہزاروں احکامات کو مستحب کہہ کر گزر جاتے ہیں۔
اے
مسلمان، غور کر۔ تیری پھیلائی ہوئی غلاظت اور ناپاک کاموں کی وجہ سے آج پوری
مسلمان قوم کی صحت کا کیا حال ہے۔ قوم کا ہر فرد بیمار نظر آتا ہے۔ معصوم اور
پھولوں جیسے بچوں کے چہرے کُمھلائے ہوئے اور زرد نظر آتے ہیں۔ غلیظ مکانات اور
پراگندہ خیالات نے مسلمان قوم کا وقار کس قدر کم کر دیا ہے۔ اجتماعی، تمدنی،
معاشرتی وسعتوں سے نکل کر ہم غیر اقوام کے آلۂ کار بن گئے ہیں اور ہمارے اوپر
غلامی مسلط کر دی گئی ہے۔
قرآن
کا ایک حکم ’’صفائی اختیار کرو‘‘ کو چھوڑ کر ہم کتنے ذلیل و خوار ہو گئے ہیں۔ اے
قوم! تو کیوں غور نہیں کرتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں روحانی و
جسمانی نجاستوں اور غلاظتوں سے نجات دلانے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ سورۂ ابراہیم
میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے
رسول ہم نے تجھے یہ بلند کتاب اس لئے دی کہ تو دنیا کو غلاظت اور کثافت کی
تاریکیوں سے نکال کر نفاست، پاکیزگی اور لطافت کی روشنیوں کی طرف رہنمائی کرے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔