Topics

علم و آگہی


اے اللہ تو جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بنا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے غلامی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ عزت و ذلت تیرے اختیار میں ہیں۔ دنیا کی تمام بلندیاں تیرے دست قدرت میں ہیں اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو ہی وہ مالک ہے جو تہذیب و تمدن کے دن کو رات میں اور رات کو دن میں بدلتا رہتا ہے۔ مردہ اقوام کی خاکستر میں حیات پیدا کرتا ہے اور زندہ اقوام کو موت کی نیند سلانا تیری سنت ہے۔ (آل عمران)

جس طرح رات اور دن طلوع اور غروب ہوتے رہتے ہیں اسی طرح اقتدار بھی اقوام عالم میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ بابل اور مصر کی تہذیبیں اپنی پوری آن بان اور شان و شوکت کے باوجود زمیں دوز ہو گئیں۔ تہذیب کا آفتاب کبھی مشرق پر چمکتا تھا، پھر یونان علم و آگہی کا مرکز بن گیا۔ پھر یونان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سلطنت روم وجود میں آ گئی۔ آفتاب تہذیب پھر پوری طرح مغرب پر چمکنے لگا کچھ عرصے بعد ایران نے زندگی کی ایک نئی انگڑائی لی۔ یہاں تک کہ ریگستان عرب سے علم و عرفان کے بادل اٹھے اور ان علم و عرفان کے بادلوں سے مشرق و مغرب دونوں ہی سیراب ہو گئے۔

اور پھر جب مسلم قوم نے اپنا تشخص کھو دیا، اپنا کردار گھناؤنا بنا لیا تو علم و آگہی کا سورج مغرب کی طرف لوٹ گیا۔ آج پست اقوام اعلیٰ اور بلند ہیں اور اعلیٰ اقوام سابقہ پست اقوام کے سامنے ذلت و رسوائی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ قوم کے افلاس کا یہ عالم ہے کہ علم و ہنر میں ہی نہیں، اپنی معاش میں بھی خود کفیل نہیں ہے۔ وہ قوم جو قرآن کو نافذ کرتی تھی معاشی اعتبار سے اتنی مفلوک الحال ہے کہ اس کی سوچ اور فکر پر بھی پردے پڑ گئے ہیں۔ سود جیسی لعنت نے اسلام نافذ کرنے والی قوم کو اس طرح بے بس و مجبور کر دیا ہے کہ حقیقت کا برملا اظہار بھی ایک لاینحل مسئلہ بن گیا ہے۔ اللہ کہتا ہے:

سود لینے والے، سود دینے والے اور سودی معیشت میں زندہ رہنے والے اللہ کے ایسے دشمن ہیں جو اللہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔

تمام مسلمان نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ عقل دست بگریباں ہے کہ اللہ کے دشمنوں کی نماز، نماز کس طرح ہوئی۔ اللہ کے ساتھ حالت جنگ میں رہتے ہوئے روزے کی برکتیں اور سعادتیں کیسے حاصل ہونگی۔ جن لوگوں کو اللہ نے اپنا دشمن قرار دے دیا ہے وہ کس منہ سے خانۂ کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں اور خانۂ کعبہ کے انوار و تجلیات سے اللہ کے دشمن کیونکر منور ہو سکتے ہیں؟

تاریخ ایک عظیم گواہ ہے کہ جس قوم نے اللہ کے بنائے ہوئے قانون کا مذاق اڑایا، اللہ نے اس قوم کو پست اور ذلیل کر دیا۔

کیا ہمارے لئے ابھی بھی لمحۂ فکریہ نہیں آیا کہ ہم اپنے ظاہر اور باطن کا محاسبہ کریں۔۔۔۔۔۔؟

پانی میں دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ہے۔ اگر اس کی مقدار کو ذرہ بھر گھٹایا بڑھا دیا جائے تو ایک زہر تیار ہو گا۔ اگر یہ دونوں عناصر مساوی مقدار میں جمع کر دیئے جائیں تب بھی ایک مہلک مرکب بنے گا۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن ہر دو قاتل اور مہلک گیس ہیں جن کے مختلف اوزان سے لاکھوں مرکبات تیار ہو سکتے ہیں اور ہر مرکب زہرہلاہل ہوتا ہے لیکن اگر دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن کو ایک جگہ کر دیا جائے تو ان دو زہروں سے جو پانی تیار ہو گا تمام عالمین کے لئے حیات و ممات کا ذریعہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اورہم نے پانی سے ہر شے کو حیات عطا کی۔‘‘ (سورۂ انبیاء)

’’ہم نے ہر چیز کو معین مقدار سے پیدا کیا ہے۔‘‘(سورۂ قمر)

’’ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم معین مقدار میں ہر چیز کو نازل کرتے ہیں۔‘‘ (سورۂ حجر)

سبحان اللہ! کیا کیا نشانیاں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کرنے والوں کے لئے بتائی ہیں!

لیموں اور کالی مرچ دونوں چیزیں ہائیڈروجن دس حصے اور کاربن بیس حصے سے تیار ہوتے ہیں لیکن مقداروں کے تفاوت اور الگ الگ تعین سے دونوں کی شکل، رنگ، ذائقہ، حجم اور تاثیر بدل گئی۔ اسی طرح کوئلہ اور ہیرا کاربن سے وجود میں آتے ہیں۔ لیکن مقداروں کے الگ الگ تعین سے ایک کا رنگ کالا اور دوسرے کا رنگ سفید بن گیا ہے۔ ایک قابل شکست اور دوسرا ٹھوس ہے، ایک کم قیمت اور دوسرا نایاب ہے، ایک نوع انسانی کو حیات نو عطا کرتا ہے اور دوسرا انگشتری میں زینت و زیبائش کے کام آتا ہے۔

اللہ رب العالمین نے جس محبت اور یگانگت سے نوع انسانی کو پیدا کیا ہے، ویسی ہی محبت اور یگانگت کے ساتھ وہ چاہتا ہے کہ انسان کائنات میں حکمران بن کر اللہ کی بادشاہی میں شریک ہو تا کہ اللہ کی نیابت اور خلافت کا حق ادا کر سکے۔



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔