Topics
انسان ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتا چلا آیا ہے کہ وہ جو کچھ کماتا ہے وہ سب اس کی
صلاحیتوں کا نتیجہ ہے، اس کے زور بازو کا ثمرہ ہے۔ چنانچہ وہ اپنی دولت کا پوری
طرح مالک و مختار ہے، جس طرح چاہے خرچ کرے۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ اس سے باز پرس کر
سکے۔ قرآن پاک نے قارون کو اس سرمایہ دارانہ اور ابلیسانہ طرز فکر کے نمائندے کی
حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اس گروہ کا سرغنہ قارون جو کچھ کہتا تھا قرآن ان الفاظ میں
بیان کرتا ہے:
’’میں نے جو کچھ کمایا ہے اپنی ہنر مندی سے کمایا ہے۔‘‘
(قصص)
معاشرتی
اور انفرادی سطح پر اس طرز فکر کی کارفرمائی کی بنیادی وجہ انسان کے اندر سرمایہ
پرستی کا ذہن ہے۔ آدمی ہمیشہ سے مال و دولت کا بھوکا اور آسائشوں کا طلب گار رہا
ہے۔ دولت سمیٹنے کی دھن ہمیشہ اس کے اوپر سوار رہتی ہے۔ آدم کی اولاد نے ہر جائز و
ناجائز طریقے سے دولت اکٹھا کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ وہ شعور کی
حالت میں داخل ہونے سے قبر کا منہ دیکھنے تک دولت اکٹھا کرنے کی دوڑ میں بے لگام
گھوڑے کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔
’’تمہیں
ایک دوسرے سے آگے بڑ ھ جانے کی خواہش نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا
دیکھیں۔‘‘
انفرادی
حدود میں دولت پرستی کی بیماری آدمی کی انا اور اس کی ذات سے گھن بن کر چپک جاتی
ہے۔ اس کی انسانی صفات کو چاٹتی رہتی ہے اور خالق کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو زنگ
آلود کر دیتی ہے۔ آدمی کے باطن میں ایک شیطانی وجود پرورش پانے لگتا ہے جو لمحہ بہ
لمحہ بڑا ہو کر اس کی ذات کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ آدمی کی بہترین تخلیقی
صلاحیتیں دولت کی حفاظت میں صرف ہو جاتی ہیں۔ اگر دولت پرستی کا مرض معاشرہ میں
پھیل جائے تو قوم کے افراد ایک دوسرے کے حق میں بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔ آدمی کے
لباسوں میں یہ درندے جب موقع ملتا ہے جھپٹ کر دوسرے کو شکار کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ
معاشرے میں طرح طرح کے قوانین اور رسوم کو رواج دے کر نچلے طبقہ کا خون چوستے رہتے
ہیں۔ قانون قدرت سرمایہ پرستی اور لالچ کو کبھی پسند نہیں کرتا۔ وہ ایسی قوموں کو
غلامی، ذلت اور افلاس کے عمیق غار میں دھکیل دیتا ہے۔
قرآن
پاک سرمایہ پرستوں کے اس اولین دعوے پر کاری ضرب لگاتا ہے کہ ان کی کمائی اور ان
کی دولت ان کی ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہارا یہ خیال کہ رزق کا
حصول اور اس کی پیدائش تمہارے زور بازو کا نتیجہ ہے، ایک خام خیال ہے۔ فطرت کے
قوانین اور اس کے وسائل خود تمہارے لئے مسلسل رزق کی بہم رسانی میں مصروف ہیں۔
سمندروں سے پانی بخارات کی شکل میں زمین پر برستا ہے اور زمین کی مردہ صلاحیتوں
میں جان ڈال کر اسے وسائل کی تخلیق کے قابل بنا دیتا ہے۔ زمین طرح طرح کی پیداوار
کو جنم دے کر انسان کی پرورش کرتی ہے اور اس کی زندگی کے قیام کے وسائل فراہم کرتی
ہ ے۔ ہوا، سورج کی روشنی اور بہت سے دوسرے عوامل اس دوران فصلوں کو بارآور کرنے
میں سرگرم رہتے ہیں۔ اور بلا معاوضہ آدمی کی خدمت کرتے ہیں۔ رزق اور وسائل کے حصول
اور عمل میں انسان کی کوشش صرف ہاتھ بڑھا کر روزی حاصل کر لینا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔