Topics
باز آ باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبرو بت پرستی باز آ
ایں درگہ مادر گہ نومیدینیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
ترجمہ:
پلٹ آ خدا کی طرف پلٹ آ۔ تو جو کچھ بھی ہے، جیسا بھی ہے خدا کی طرف لوٹ آ۔ اگر تو
کافر ہے، بت پرست ہے تب بھی خدا کی طرف سے ناامید مت ہو۔ اللہ کا دربار مایوسی اور
ناامیدی کا دربار نہیں ہے۔ اگر تو نے سو بار بھی توبہ توڑی ہے تب بھی مایوس ہونے
کی بات نہیں ہے۔ آگے بڑھ اور اپنے خدا سے رجوع کر۔
توبہ
کے معنی ہیں رجوع کرنا، واپس آ جانا، بچھڑ کر مل جانا اور شرمسار ہو کر خدا کی طرف
متوجہ ہونا۔ ہمار ے پالنے والے کو، ہمیں زندگی عطا کرنے والے کو اور ہمارے رب کو
سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب بندہ اظہار ندامت کے ساتھ عجز و انکساری کے
ساتھ اللہ کے حضور جھک جاتا ہے۔
ایک
دفعہ کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا دودھ پیتا
بچہ اس سے بچھڑ گیا تھا۔ وہ مامتا کی ماری ایسے بے قرار تھی کہ جس چھوٹے بچے کو
دیکھتی اسے اپنے سینے سے لگا کر دودھ پلانے لگتی۔ اس عورت کا یہ حال دیکھ کر حضور
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا ’’کیا تم توقع کر سکتے ہو کہ یہ ماں
اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھ سے آگ میں پھینک دے گی؟‘‘
صحابہ
نے کہا۔ ’’یا رسول اللہ! خود پھینکنا تو درکنار، اگر بچہ آگ میں گرنے لگے تو یہ
اپنی جان دے کر بھی بچہ کو بچا لے گی۔‘‘
نبی
برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا۔ ’’خدا اپنے بندوں پر اس سے زیادہ
مہربان ہے۔‘‘
گناہ
سرزد ہو جائے تو بہ کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اظہار ندامت کے ساتھ، انکسار کے ساتھ، عاجزی کے ساتھ اپنے اللہ
کے سامنے سجدہ ریز ہو کر معافی طلب کیجئے۔ توبہ اور استغفار سے روح مجلیّٰ ہو جاتی
ہے اور قلب دھل جاتا ہے۔ نہایت خلوص اور سچائی کے ساتھ توبہ کرنے سے انسان کی
زندگی بدل جاتی ہے۔ ازل میں خدا سے کئے ہوئے عہد و پیمان کو قائم رکھنا بندہ کا
اخلاقی اور روحانی فرض ہے۔ اس فرض کو پورا کرنا ہمارے اوپر واجب ہے۔ اپنی پاکیزگی
اور اصلاح حال کا خیال رکھیئے۔ اپنی ساری کوششوں کے باوجود اگر آپ اپنے عہد پر قائم
نہ رہیں اور آپ سے غلطی سرزد ہو جائے تو بھی رحیم و کریم سے مایوس ہرگز نہ ہوں
بلکہ پھر خدا ہی کے دامن رحمت میں پناہ تلاش کریں۔ خدا آپ سے دور نہیں ہے۔ وہ آپ
کی رگ جاں سے زیادہ قریب ہے۔ جہاں آپ ایک ہیں، وہاں دوسرا اللہ ہے، جہاں آپ دو ہیں
وہاں تیسرا اللہ ہے۔ آپ جو کام کرتے ہیں اللہ دیکھتا ہے۔ آپ جو کچھ چھپاتے ہیں
اللہ اسے جانتا ہے۔ وہی آپ کی انتہا ہے۔ وہ ہر چیز پر محیط ہے، قادر مطلق اور علیم
و خبیر ہے۔ آپ خدا کو آواز دیں۔۔۔۔۔۔اے خدا ہمارے پروردگار! بے شک میں بہت کمزور
ہوں، بلا شبہ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے مگر آپ کی رحمت میرے گناہوں پر محیط
ہے۔ اے میرے رب! اے وہ ذات جو ستر ماؤں سے زیادہ محبت اپنے بندوں سے کرتی ہے، میرے
اوپر رحم فرما اور مجھے اپنے دامن عافیت میں قبول فرما!
ضروری
نہیں ہے کہ آدمی جب گناہ کرے اسی وقت توبہ استغفار کرے۔ آدمی ہر وقت توبہ کا محتاج
ہے۔ قدم قدم پر اس سے کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ
و سلم ازل سے معصوم ہیں۔ اللہ کے محبوب ہیں۔ شافع روز جزا ہیں، رحمت للعالمین ہیں
اس کے باوجود ستر ستر بار اور سو سو بار استغفار فرماتے تھے اور آج بھی حضور صلی
اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل جاری ہے۔ نبی مکرم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم
نے فرمایا کہ سب سے عمدہ دعا یہ ہے:
اے
اللہ! تو میرا پروردگار ہے، تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا
اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے تجھ سے اطاعت و بندگی کا جو عہد و پیمان کیا ہے
اس پر اپنے ارادے اور اختیار کی حد تک قائم رہوں گا اور جو گناہ بھی مجھ سے سرزد
ہوئے اس کی سزا سے بچنے کے لئے میں تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اے اللہ! تو نے مجھے جن
نعمتوں سے نوازا ہے ان کا میں اقرار کرتا ہوں اور مجھے اعتراف ہے کہ میں گناہ گار
اور خطا کار ہوں۔ اے میرے پروردگار! میرے جرم کو معاف کر دے۔ تیرے سوا میری خطاؤں
اور لغزشوں کو اور کون معاف کرنے والا ہے!
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’فی
الواقع جو لوگ خدا سے ڈرنے والے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے
کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں
صاف نظر آنے لگتا ہے کہ صحیح روش کیاہے۔‘‘ (الاعراف ۲۰۱)
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔