Topics

ترقی کا محرم غیر مسلم؟



حضرت عزیر علیہ السلام کا گزر بیت المقدس کے قریب ہوا تو تباہ و برباد بستی کو دیکھ کر دل میں خیال آیا، کیا یہ ویران اور تباہ حال بستی دوبارہ آباد ہو سکتی ہے؟ کیا اس بستی میں آباد انسان جن کا اب نام و نشان باقی نہیں رہا دوبارہ اس بستی کو رونق بخشیں گے؟ یہ سوچتے سوچتے ذرا دیر کے لئے زمین پر پیٹھ لگا لی تو نیند آ گئی اور سو سال تک سوتے رہے۔ سو سال یا ایک صدی تک سونے کے بعد نیند سے بیدار ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اپنے گدھے پر غور کر جس کی ہڈیاں بھی راکھ کا ڈھیر بن گئی ہیں اور دیکھ ہم کس طرح انہیں ترتیب دے کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ حضرت عزیرؑ نے مردہ گدھے کو زندہ ہوتے دیکھا تو پکار اٹھے مجھے ایسی قدرت کا علم اب حاصل ہوا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ)

کائنات کا علم جب حاصل ہو جاتا ہے تو انسان کے اندر ایمان و یقین کی ایک دنیا روشن ہو جاتی ہے اور نور سے دل منور ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’جب ان کے سامنے آیات الٰہی کی تفسیر پیش کی جاتی ہے تو ان کے سینے منور ہو جاتے ہیں۔‘‘ (سورۂ انفال)

تاریکیوں سے نکلنے، حزن و ملال کی زندگی سے آزاد ہونے، اقوام عالم میں مقتدر ہونے، دل و دماغ کو انوار الٰہیہ کا نشیمن بنانے اور نظام ربوبیت اور خالقیت کو سمجھنے کے لئے صحیفۂ کائنات کے ذرے ذرے کا مطالعہ امر لازم ہے۔ صحیفۂ کائنات کے ایک ایک جزو کی تشریح قرآن پاک میں موجود ہے۔ قرآن وہ صحیفۂ آسمانی ہے جو ہر زمانے اور ہر قوم کے لئے زندگی کا پیغام ہے۔ قرآن جہاں تسخیر کائنات کے فارمولوں کی دستاویز ہے وہاں انسانی زندگی کے لئے ایک دستور ہے۔ اس دستاویز میں ایسے راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن پر چل کر ذلت عزت میں، شکست فتح میں، کمزوری قوت میں، بدحالی خوش حالی میں اور انتشار وحدت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اللہ کا قانون ہمہ گیر ہے، سب کے لئے ہے۔ جس طرح ہر آدمی متعین فارمولے سے کوئی چیز بنا لیتا ہے اسی طرح صحیفۂ ہدایت میں غور و فکر کر کے اپنے لئے ایک منزل تعین کر لیتا ہے۔

ہائے افسوس! مسلمان کے اندر سے غور و فکر کا پیٹرن (PATTERN) نکل گیا ہے، سوخت ہو گیا ہے۔ مسلمان کی ذہنی ، شعوری، فکری اور اساسی بنیاد نے ایسی راہ پر چلنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جہاں فکر و تدبیر کا دم گھٹ جاتا ہے اور ایک مخصوص طبقہ نے نا ہموار، ناکام اور نامراد راستے پر مسلمان کو اس لئے ڈال دیا ہے کہ اس طبقہ کی اجارہ داری قائم رہے۔ صحیفۂ آسمانی ہمیں زمین کے اندر بھرے ہوئے خزانوں اور سمندر کے اندر موجود دولت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، حکم دیتا ہے اور پہاڑوں کے جگر چاک کر کے ان کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ مگر ہم نے اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیا ہے، کان بند کر لئے ہیں اور آنکھوں پر دبیز پردے ڈال لئے ہیں اور اس طرح وہ قوم جو تسخیر کائنات کے فارمولوں کی امین بنی تھی، تہی دست اور مفلوک الحال بن گئی ہے۔

غیر مسلم(اللہ کی مخلوق) نے جب اس صحیفہ کے اندر بیان کردہ اصولوں، قاعدوں مقداروں اور فارمولوں پر غور کیا تو وہ عزت دار بن گئے، علم و ہنر کے میدان میں ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ آج وہ ہواؤں میں محو پرواز ہیں، ان کے جہاز اور ان کی کشتیوں نے سمندر کے سینے کو چھلنی کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہواؤں پر ان کی حکمرانی ہے، دریا اور سمندر ان کے زیر اثر ہیں، زمین کے اندر خزانے ان کے تابع ہیں، ہزاروں میل دور بسنے والوں کی آواز آن واحد میں سننا اب روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ غیر مسلم اقوام نے صحیفۂ کائنات پر غور کرنا اور کائنات میں موجود ہر شے کی تخلیق کا راز جاننا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ کیوں کہ وہ تخلیقی علم سے بے گانہ نہیں ہیں، اس لئے ترقی ان کی باندی بن کر رہ گئی ہے۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ ہر ترقی کا مخزن غیر مسلم ہیں اور ہر بربادی، ذلت اور رسوائی مسلمان کا امتیازی نشان ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسلام کے نام لیواؤں اور مسلم قوم کے دانشوروں نے شعور و آگہی اور فکر پر اپنی مصلحتوں کے پہرے بٹھا دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولﷺ سے فرماتا ہے:

’’اے رسول! مسلمانوں کو حکم دے کہ وہ زمین کے مختلف شواہد کا معائنہ کر کے آغاز آفرینش کا کھوج لگائیں۔‘‘(سورۂ عنکبوت)

’’کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اونٹ کی تخلیق کیسے ہوئی، آسمان کیونکر مرتفع کیا گیا، پہاڑ کیسے نصب کئے گئے اور زمین کیوں کر بچھ گئی۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم )اعمالِ الٰہی کی ایمان افروز داستان ان کو سنا کہ یہ تیرا فرض ہے۔‘‘ (سورۂ غاشیہ)



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔