Topics
ایمان ایک ایسا جوہر ہے جس کی چاشنی اور حلاوت دنیا کی
ہر چیز سے زیادہ ہے مگر یہ حلاوت اور چاشنی اسی بندے کو حاصل ہوتی ہے جو دنیا کی
ہر چیز سے زیادہ اللہ کو محبوب رکھتا ہے۔ وہ بندہ جو اللہ سے زیادہ دوسری چیزوں کو
عزیز رکھتا ہے، اللہ کا سچا بندہ اور شیدائی نہیں ہے۔ جب ہم محبت کا تذکرہ کرتے
ہیں تو محبت ہم سے کچھ تقاضے کرتی ہے اور وہ تقاضا یہ ہے کہ محبت ہمیشہ قربانی
چاہتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ محبت ایک ایسی قلبی کیفیت کا نام ہے جو ظاہر آنکھوں سے
نظر نہیں آتی لیکن انسان کا عمل اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ اس کے اندر محبت
کا سمندر موجزن ہے یا نہیں۔ ایک آدمی زبانی طور پر اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ میں
اپنے محبوب سے محبت کرتا ہوں لیکن جب ایثار اور قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے
قول میں سچا ثابت نہیں ہوتا اس کی محبت قابل تسلیم نہیں سمجھی جائے گی۔ خدائے
تعالیٰ سے جو لوگ محبت کرتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ بھی محبت کرتا ہے اور جب اللہ
تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کے دل میں محبت بھر دیتے ہیں۔ محبت کی یہ
خوشبو جب آسمان کی رفعتوں کو چھوتی ہے تو آسمان والے بھی اس بندے سے محبت کرنے
لگتے ہیں اور جب محبت کی یہ خوشبو زمین کی چاروں سمت کو محیط ہو جاتی ہے تو زمین
پر بسنے والا ہر فرد خواہ وہ انسان ہو، پرندہ ہو، چرندہ ہو، درندہ ہو، اس شخص سے
والہانہ محبت کرتا ہے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’جب
اللہ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیلؑ کو بلا کر کہتا ہے میں فلاں
بندے سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔
حضرت
جبریلؑ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور عالم آسمان میں اعلان کرتے ہیں کہ خدا اپنے
فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت
کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس بندے کے لئے زمین والوں کے دلوں میں قبولیت اور عقیدت پیدا
کر دی جاتی ہے۔
جب
اللہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ اللہ اپنی مخلوق سے محبت
کرتا ہے۔ یہ محبت ہی تو ہے کہ مخلوق کو زندہ رکھنے کے لئے طرح طرح کے وسائل پیدا
کرتا ہے۔ زمین کو اس نے حکم دے رکھا ہے کہ میری مخلوق کے لئے انواع و اقسام کی
غذائیں پیدا کر، سورج کو حکم دیا ہے کہ فضا کو مسموم ہونے سے محفوظ کر دے کہ میری
مخلوق بیمار نہ ہو جائے۔ چاند کو حکم دیا ہے کہ اپنی ٹھنڈی کرنوں سے پھلوں میں
شیرینی پیدا کرتا کہ میری مخلوق خوش نما، خوش ذائقہ اور شیریں پھل کھاتی رہے۔ ہوا
کو حکم دیا ہے کہ سبک خرامی کے ساتھ چلتی رہ تا کہ میری مخلوق کی زندگی میں کام
آنے والی بنیادی شے آکسیجن(OXYGEN) فراہم ہوتی رہے۔ زمین کو اللہ نے نہ اتنا سخت بنایا ہے کہ آدمی
جب اس پر چہل قدمی کرے تو اس کے پیر دکھ جائیں، نہ زمین کو اتنا نرم بنایا ہے کہ
جب اللہ کی مخلوق زمین پر چلے تو اس کے پیر دھنس جائیں۔ یہ اللہ کی محبت ہی تو ہے
کہ اس نے اپنی قدرت کو پابند کر دیا ہے کہ وہ ایک توازن کے ساتھ، معین مقداروں کے
ساتھ مخلوق کی پرورش کرتی رہے۔ یہ اللہ کی محبت ہی تو ہے کہ اس نے اپنی مخلوق کو
آگ کی جھلسا دینے والی تپش سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک نظام بنایا۔ ایک نظام قائم کیا
اور اس نظام سے اپنی مکلف مخلوق کو متعارف کرانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار
پیغمبر بھیجے۔ اس سے زیادہ محبت کی اور کیا روشن مثال ہو سکتی ہے کہ اللہ نے اپنے
رحمت للعالمین محبوب ﷺ کو مخلوق کے درمیان بھیج دیا اور یہ اللہ کی رحمت ہی تو ہے
کہ اس نے ماں کے دل میں بچے کی محبت اس طرح پیوست کر دی کہ ماں اپنے خون کا ایک
ایک قطرہ بچے کے اندر انڈیلتی ہے اور پھر بھی خوش ہے۔
اللہ
جب کسی سے محبت کرتا ہے تو یہ بھی چاہتا ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے۔رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کا ارشا د گرامی ہے:
’’جب
کسی بندے نے اللہ کے لئے کسی بندے سے محبت کی تو اس نے اپنے رب کی تعظیم کی۔‘‘
قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب خاتم النبیین، ختم المرسلین، رحمت للعالمین صلی
اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے:
’’اے
ہمارے چہیتے محبوبﷺ! آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی
کرو، خدا تم کو اپنا محبوب بنا لے گا۔‘‘
خدا
سے محبت کے دعوے کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے اور یہ دعویٰ خدا کی نظر میں اسی وقت
قابل قبول ہے جب ہم خدا کے رسولﷺ کی پیروی کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔