Topics
قرآن مجید ہمیں ایسی اخلاقی اور روحانی قدروں سے
آشنا کرتا ہے جن میں زمان و مکان کے اختلاف سے تبدیلی نہیں ہوتی۔ قرآن ہمیں ایسے
ضابطۂ حیات سے متعارف کراتا ہے جو دنیا میں رہنے والی ہر قوم کے لئے قابل عمل ہے۔
اگر قرآن کی بتائی ہوئی اخلاقی اور روحانی قدریں سوئیٹزرلینڈ کی منجمند فضاؤں میں
زندہ اور باقی رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو افریقہ کے تپتے ہوئے صحرا بھی ان قدروں
سے مستفیض ہوتے ہیں۔ جس طرح مادی دنیا میں رہنے کے لئے ایسے آداب معاشرت اور
قوانین موجود ہیں جو زمان و مکان کے اختلاف سے تبدیل نہیں ہوتے۔ اسی طرح روحانی
زندگی کے بھی کچھ قوانین ہیں جن میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
نوع
انسانی کا یہ علم ہے کہ آگ جسم کو جلاتی ہے۔ آدم سے تاایں دم اور قیامت تک آگ کا
جلانا ایک مسلمہ امر ہے۔ ہر زمانے اور ہر خطۂ میں زمین پر آگ کا یہ وصف قائم ہے کہ آگ جلا
دینے والی شے ہے۔ جس طرح صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی سے اس جہان آب و گِل میں
جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے اسی طرح روح کی صحت کے لئے بھی حفظان صحت کے اصول متعین
ہیں، جن اصولوں سے ہماری روحانی صحت برقرار رہتی ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جن کا پرچار
تمام پیغمبروں نے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے۔ یہ روحانی صحت کو
برقرار رکھنے کے اصول دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ پہلا حصہ اللہ کے حقوق اور دوسرا حصہ
بندوں کے حقوق۔ بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو اللہ کی ذات اور صفات کی
معرفت حاصل ہو، اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہو، اس کے اندر عبادت کا ذوق اور
اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندے کا اللہ کے ساتھ اس طرح تعلق استوار
ہو جائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے۔ بندہ یہ بات اپنے پورے ہوش و
حواس کے ساتھ جان لے کہ میرا للہ کے ساتھ ایک ایسا رشتہ ہے جو کسی آن، کسی لمحے
اور کسی وقفے میں نہ ٹوٹ سکتا ہے، نہ معطل ہو سکتا ہے، نہ ختم ہو سکتا ہے۔ یہ بات
بھی حقوق اللہ میں شامل ہے کہ بندہ اس بات سے باخبر ہو اور اس کا دل اس بات کی
تصدیق کرے کہ میں نے عالم ارواح میں اس بات کا عہد کیا ہے کہ میرا رب، مجھے بنانے
والا، خدوخال بخش کر میری پرورش کرنیوالا اور میرے لئے وسائل فراہم کرنے والا اللہ
ہے اور میں نے اللہ سے اس بات کا عہد کیا ہے کہ میں زندگی خواہ وہ کسی عالم کی
زندگی ہو، آپ کا بندہ اور آپ کا محکوم ہو کر گزاروں گا۔
حقوق العباد یہ ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھے
کہ ساری نوع انسان اللہ کا ایک کنبہ ہے اور میں خود اس کنبے کا ایک فرد ہوں۔ جس
طرح کوئی انسان اپنی فلاح و بہبود اور اپنی آسائش کے لئے اصول وضع کرتا ہے اسی طرح
ہر انسان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کی آسائش و آرام کا خیال رکھے۔
انبیاء اور اہل اللہ کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات مظہر بن کر سامنے
آتی ہے کہ تمام انبیائے کرام اور تمام اہل اللہ نے مخلوق کی خدمت کو اپنا نصب
العین قرار دیا ہے۔ اللہ کی مخلوق کی خدمت کا سچا اور مخلصانہ جذبہ انسان کے اندر
محبت، اخوت، مساوات اور مامتا کو جنم دیتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر چالیس راتیں
عبادت میں اس لئے گزاریں کہ ان کے پیش نظر بنی اسرائیل کو بھرپور فیض سے نوازنا
تھا۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام غار حرا سے باہر تشریف لائے تو بنی نوع
انسان کو بے پناہ مادی اور روحانی فیض حاصل ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے
غار حرا کی تاریکی میں گیان دھیان کر کے جو نعمت حاصل کی اس نعمت سے آدم زاد کی
پیاسی روحوں کو سیراب فرمایا۔ قرآن پاک روحانی اور انسانی قدروں کا تذکرہ کر کے
بندوں کو حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے طریقے سکھاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ
اپنے حقوق کا تذکرہ فرماتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہے، وہ خداوند قدوس ہے،
وہ سلامتی اور امن دینے والا ہے، وہ نگہبان ہے، وہ غالب اور دبدبے والا ہے اور
کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے، وہ خالق کائنات ہے، موجدِ کائنات ہے اور صورت گر
موجودات ہے۔
بندہ جب اللہ
تعالیٰ کے حقوق پورے کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس عمل کو
قبول فرماتا ہے۔ سورۂ انعام میں ارشاد ربانی ہے:
’’انسان
کی آنکھیں اللہ کا ادراک نہیں کرتیں اور اللہ آنکھوں کا ادراک کر لیتا ہے۔‘‘ یعنی
بے بضاعت اور بے نظر انسان جو اپنی آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، اللہ خود
آنکھوں کا ادراک بن کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں:
’’میں تو تیرے قریب ہوں، تو مایوس ہوتا ہے، میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب
دیتا ہوں۔‘‘
اللہ یہ بھی فرماتے ہیں:
’’تم جہاں بھی جاتے ہو میں تمہارے
ساتھ ساتھ ہوتا ہوں۔‘‘
قربت کے مزید اظہار کے لئے اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہم تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ
قریب ہیں۔‘‘
ناقابل ادراک ہونے کے باوجود اللہ
انسان کے ساتھ اپنی معیت اور قربت کا بار بار اعلان کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔