Topics
۱۔
حکمت سیکھو جہاں سے بھی ملے۔
۲۔ حکمت مومن کی کھوئی ہوئی پونجی ہے وہ جہاں
کہیں اس کو پائے اٹھا لے۔
۳۔ ایک ساعت کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے افضل
ہے۔
۴۔طلب علم بہترین عبادت ہے۔
۵۔ علم اسلام کی حیات اور اسلام کا ستون ہے۔
۶۔ ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر علم
سیکھنا فرض ہے، پس علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو۔ جو شخص دنیاوی فوائد حاصل کرنا
چاہتا ہے اسے چاہئے کہ علم حاصل کرے۔ جو شخص اُخروی متاع حاصل کرنا چاہتا ہے اسے
چاہئے کہ علم حاصل کرے۔
رب
العالمین کے فرستادہ رحمت للعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور دعوت علم
کا اثر یہ ہوا کہ حضورﷺ کے امتی پوری توجہ اور جذب و شوق کے ساتھ علم حاصل کرنے
میں مشغول ہو گئے۔ جہاں جہاں سے بھی ان کو علم حاصل ہو سکتا تھا انہوں نے حاصل کیا
اور علم کی فضیلت نے انہیں علوم و فنون میں کرۂ ارض پر قائد اور رہنما بنا دیا۔
مسلمانوں نے اپنے علوم کی بنیاد اوہام پرستی، قیاس آرائی اور مفروضہ باتوں پر نہیں
رکھی بلکہ ہر ہر میدان میں تجربے اور مشاہدے کی بنا پر نئی نئی سائنسی، تحقیقات
کیں جس کے نتیجے میں مسلمان طبیب، مسلمان ہیئت داں جابر فارابی، زکریا ابن سینا،
خوارزمی، عمر خیام ، نصیر الدین طوسی، ابو الحسن، ابن محمد قزوینی، رازی،
ابوالقاسم البیرونی، ابن خلدون، امام غزالی وغیرہ پیدا ہوئے۔ اور انہوں نے اپنی
محنت اور تحقیق سے سائنسی علوم میں ایک غیر معمولی اضافہ کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے
جب یورپ توہمات میں ڈوبا ہوا تھا۔ مسلمان سائنس دانوں نے قطب نما، بارود اور کاغذ
ایجاد کیا۔ یہ عرب سائنس داں ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے فضا میں پرواز کی کوشش
کی۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے پتھر سے شیشہ بنایا۔
دوربین
اور پن چکی ایجاد کی۔ اندھوں کے پڑھنے کے لئے ابھرے ہوئے حروف (BRAIL) ایجاد کئے۔ الجبرا کا وجود بھی عربوں کا رہین منت ہے۔ انہوں نے
جیومیٹری(GEOMETRY)
ٹرگنو میٹری(TRIGNOMETRY)
کے یونانی علوم میں بیش بہا اضافہ کیا۔ ستاروں کی فہرستیں اور ان کے نقشے تیار
کئے۔ سطح زمین کے ایک درجے کو ناپ کر تمام کرۂ ارض کا محیط دریافت کیا۔ مختلف قسم
کی آبی شمسی گھڑیاں بنائیں۔ پنڈولم ایجاد کیا جس سے وقت ناپا جا سکے۔ فن طباعت
ایجاد کیا اور فن طب(MEDICINE) میں انقلاب برپا کیا۔
حضور
صلی اللہ علیہ و سلم کی پاکیزہ تعلیم نے عربوں کے دل میں علم کی وقعت اتنی جاگزیں
کر دی تھی کہ وہ علم و حکمت کو اپنی میراث سمجھتے تھے۔ جہاں کہیں سے بھی ان کو
حکمت و دانش ملتی تھی اس کو حاصل کرتے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں مسلم ماہرین علم نے بنی
نوع انسان کے علم میں نہایت اہم اور جدید اضافے کئے۔ ان نامور مصنفین کی تصنیفات
پڑھ کر موجودہ زمانے کا ہر تعلیم یافتہ شخص ان کتابوں کی ایک امتیازی خصوصیت نوٹ
کرتا ہے۔ وہ خصوصیت یہ ہے کہ ان میں کہیں بھی اسلامی عقائد کے ساتھ تضاد اور
مخالفت نہیں پائی جاتی۔ کسی جگہ بھی اسلام اور سائنس کا ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ ان نامور
مسلم سائنسدانوں کے علم و فضیلت کی روشنی جب چار سو پھیلی تو ان روشنیوں سے مسلم
ممالک کے باہر دور دور ممالک میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ عرب سائنس دانوں کے
اثرات پیرس، آکسفورڈ، اٹلی اور مغربی یورپ تک جا پہنچے۔
آج
کا غیر متعصب دانشور جب تخلیق کائنات اور تخلیقی اسرار و رموز پر غور کرتا ہے اور
اس سوچ بچار اور تفکر کے ڈانڈے قرآن پاک سے ملاتا ہے تو یقینی اور حقیقی ایک ہی
بات سامنے آتی ہے کہ سائنس انسان کی پیدائشی خاصیت ہے۔ حقیقت میں دانشور جب سائنس
کے صحیح مقام کا تعین کرتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ سائنس دراصل تخلیق و تسخیر اور
موت و حیات کی حقیقت اور اس کے تمام رازوں تک پہنچنے کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔ قرآن
پاک میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ہم نے آدم کو اپنی نیابت عطا کی اور اس کو
سارے نام سکھا دیئے۔ نیابت سے مراد اللہ کے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال ہے۔
خصوصی اختیارات کے استعمال کا سوال اسی وقت زیر بحث آتا ہے کہ جب اختیارات استعمال
کرنے کے قواعد و ضوابط اور قوانین سے واقفیت حاصل ہو۔ اختیارات کے استعمال کے
قوانین سے باخبر کرنے کے لئے آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ اس سے مراد یہی ہے کہ آدم
کو تسخیر کائنات کی سائنس سکھا دی گئی تا کہ وہ اس خصوصی علم کے ذریعے کائنات پر
اپنا تصرف قائم رکھ سکے۔ علمی اعتبار سے سائنس کا علم فطرت اور کائنات کا علم ہے۔
سائنس کا مقصد ہی یہ ہے کہ کائنات کے افراد اور افراد کے اجزائے ترکیبی کی تخلیق و
ترکیب اور مقداروں کا پتہ چلے جو ایک ضابطے کے ساتھ متحرک ہیں اور یہ حرکت ہی کسی
شے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ علمی طور سے سائنس کا کام کائنات کی ساری قوتوں کو فتح
کرنا، زمین اور آسمانوں کے خزانوں سے استفادہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک
میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے لوہا نازل کیا۔ اس میں انسانوں کے لئے بے شمار فوائد
رکھ دیئے۔ ہم جب سائنسی اعتبار سے لوہے کے اندر انسانی فوائد سے متعلق خصوصیات پر
تفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آج کی سائنسی ایجاد میں کسی نہ کسی طرح
لوہے کا وجود موجود ہے۔ ریل کی پٹری میں، ہوائی جہازوں میں، لاسلکی نظام میں، ہر
ہر سائنسی ایجاد میں کسی نہ کسی طرح لوہے کا وجود اپنی اہمیت کا اظہار کر رہا ہے۔
اور اللہ کے ارشاد کے مطابق لوہے سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ ہم
جب آدم سے اب تک شعوری زاویوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے
کہ انسانی زندگی کا ہر عمل ایک سائنس ہے اور یہ سائنسی عمل ہی انسان کی ساری
ضروریات کا کفیل ہے۔ سارے انسانی پیشے، صنعتیں، دستکاری، تعمیر، مشینیں، سب ایک
سائنسی عمل(تحقیق و ترقی) کا نتیجہ ہیں۔
قرآن
پاک کے مطالعے سے ہمیں اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ عملی سائنس ہمیں مختلف اشیا کے
ذریعے پہنچی ہے مثلاًحضرت آدم کے ذریعے زراعت، حضرت نوح کے ذریعے کشتی سازی، حضرت
داؤد کے ذریعے لوہے سے متعلق صنعت و حرفت اور حضرت عیسیٰ کے ذریعے طب جیسے سائنسی
علوم اور حضرت سلیمان کے ذریعے لاسلکی نظام (WIRELESS
SYSTEM) نوع انسانی کو پہنچا ہے۔
ایک
وقت تھا کہ یورپ علم کے میدان میں تہی دست تھا۔ پورے یورپ میں جہالت اور اندھیروں
کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ مسلمان چونکہ اپنے نبئ آخر الزماں صلی اللہ
علیہ و سلم کی تعلیمات پر عمل پیرا تھا اس لئے وہ من حیث القوم ایک ممتاز قوم تھی
اور جیسے جیسے وہ نبئ آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات، فکر و تدبر اور
تحقیق و ترقی (RESEARCH&DEVELOPMENT)کے علوم سے دور ہوتا گیا اسی مناسبت سے اس کی زندگی انفرادی طور
پر اور من حیث القوم جہالت اور تاریکی میں ڈوبتی چلی گئی اور جس قوم نے علم کا
حصول اور سائنسی ترقی کو اپنے لئے لازم قرار دے دیا وہ بلند اور سرفراز ہو گئی۔ یہ
اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ جو قوم اپنی حالت نہیں بدلتی اللہ تعالیٰ اس کی حالت
تبدیل نہیں کرتا۔
ضرورت
ہے کہ ہم ناخلف اور ناسعید اولاد کے زمرے سے نکل کر خلف اور سعادت مند اولاد بنیں
اور اپنے اسلاف کے ورثے کو حاصل کریں تا کہ تاریکی کے گہرے غاروں سے ہمیں نجات مل
جائے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے ایک ساعت کا تفکر ساٹھ
سال کی عبادت سے افضل ہے، علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر
فرض ہے پس علم حاصل کرو اگرچہ چین میں ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔