Topics
ہمارے آقا سرور کونین محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قرآن
پاک سے بہت شغف تھا۔ آپﷺ نہ صرف قرآن پاک کی تلاوت کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ
دوسروں سے بھی سن کر خوش ہوتے تھے۔ ہر سال رمضان المبارک میں حضرت جبرئیلؑ آپﷺ کو
قرآن پاک سناتے تھے۔ حالت قیام میں بھی آپﷺ قرآنی آیات نہایت انہماک اور توجہ سے
پڑھتے تھے اور ایک ایک حرف واضح، ایک ایک آیت الگ ہوتی تھی۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے
کہ ۔۔۔۔۔۔
’’اپنی
آواز اور اپنے لہجے سے قرآن کو آراستہ کرو۔‘‘
رحمت
للعالمینﷺ نے یہ بشارت بھی دی ہے کہ۔۔۔۔۔۔
’’قرآن
پاک پڑھنے والوں سے قیامت کے روز کہا جائے گا جس ٹھہراؤ اور خوش الحانی سے تم دنیا
میں بنا سنوار کر قرآن پڑھا کرتے تھے اسی طرح قرآن کی تلاوت کرو اور ہر آیت کے صلے
میں ایک درجہ بلند ہوتے جاؤ۔ تمہارا ٹھکانا تمہاری تلاوت کی آخری آیت کے قریب
ہے۔‘‘
قرآن
کریم تھوڑا تھوڑا روز پڑھیئے اور اس کے معانی اور حکمتوں میں غور کیجئے، نہ یہ کہ
جلدی جلدی وافر حصہ تلاوت کر لیا جائے اور معانی میں غور و فکر نہ کیا جائے۔ قرآن
پاک میں تسخیری علوم و فارمولوں کا خزانہ پوشیدہ ہے۔ جتنی ذہنی توجہ اور اخلاص سے
ہم اس کو تلاش کریں گے اتنا ہی ہم پر یہ منکشف ہوتا جائے گا۔ حضرت عبداللہ ابن
عباسؓ فرماتے تھے کہ میں ’’القارعہ‘‘ اور ’’القدر‘‘ جیسی چھوٹی سورتوں کو معانی
اور مفہوم کے اعتبار سے سوچ سمجھ کر پڑھنا اس سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ
’’البقرہ‘‘ اور ’’آل عمران‘‘ جیسی بڑی بڑی سورتیں جلدی جلدی پڑھ جاؤں اور کچھ نہ
سمجھوں۔
حضرت
سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم بھی ایک مرتبہ ساری رات ایک ہی آیت تلاوت فرماتے
رہے۔
’’اے
خدا! اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو
توانتہائی زبردست اور نہایت حکمت والا ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔