Topics

تخلیقی فارمولے


قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ کتاب ان لوگوں کو ہدایت بخشتی ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں اور یقین کی انتہا یہ ہے کہ آدمی کے اندر کی نظر کھل جاتی ہے اور غیب اس کے لئے مشاہدہ بن جاتا ہے۔ جب تک مشاہدہ عمل میں نہ آئے یقین کی تعریف پوری نہیں ہوتی۔ قرآن پاک ایک ایسی یقینی دستاویز ہے جس دستاویز میں معاشرتی قوانین کے ساتھ ساتھ ایسے فارمولے درج ہیں جن کے اوپر تسخیر کائنات کا دارومدار ہے۔ ان فارمولوں میں اس بات کی پوری وضاحت موجود ہے کہ ہم علم الکتاب حاصل کر کے زمان و مکان یعنی TIME AND SPACEکی گرفت کو توڑ سکتے ہیں۔ قرآن پاک کے علوم کو جاننے والا اور سمجھنے والا کوئی بندہ بغیر وسائل کے خلا میں پرواز کرنے اور ایک جگہ سے دور دراز دوسری جگہ کسی چیز کو منتقل کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ یہی بندہ اللہ کا انعام یافتہ ہوتا ہے۔ آسمانوں میں اور زمین میں موجود تمام اشیاء اس کے لئے مسخر ہوتی ہیں۔

روئے زمین پر انسان کو اگر ہدایت مل سکتی ہے تو صرف اللہ کی کتاب قرآن پاک سے مل سکتی ہے۔

قرآن کریم کو اس عزم، اس ولولہ اور اس ہمت کے ساتھ پڑھیئے کہ اس کی نوارنی کرنوں سے ہمیں اپنی زندگی سنوارنی ہے۔ قرآن آئینے کی طرح آپ کے اندر ہر ہر داغ اور ہر دھبہ نمایاں کر کے پیش کرتا ہے۔ قرآن ایک ایسی انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ آپ قرآن پاک میں بیان کردہ نعمتوں سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’کتاب جو ہم نے آپ کی طرف بھیجی برکت والی ہے تا کہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔