Topics
عامرؓ ایک بار حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے ان کے گھر گئے تو دیکھا حضرت عمرؓ لیٹے
ہوئے ہیں اور بچے ان کے سینے پر چڑھے ہوئے کھیل رہے ہیں۔ ان کو یہ بات بہت گراں
گزری۔
امیر
المومنین نے ان کی پیشانی پر بل دیکھ کر فرمایا۔ ’’آپ اپنے بچوں کے ساتھ کیسا
برتاؤ کرتے ہیں؟‘‘
عامرؓ
نے کہا۔ ’’جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو گھر والوں پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے اور
سب دم بخود ہو جاتے ہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ نے بڑے سوز کے ساتھ فرمایا۔ ’’عامر! امت محمدیہﷺ کافرزند ہوتے ہوئے تم
نہیں جانتے کہ مسلمان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا سلوک
کرنا چاہئے!‘‘
ماں
پر بچے کا یہ حق ہوتا ہے کہ اسے دودھ پلایا جائے۔ قرآن پاک نے ماں کا یہی احسان
یاد دلا کر ماں کے ساتھ غیر معمولی حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ بچہ نو مہینے تک ماں
کے خون سے پیٹ میں پرورش پاتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بچے وہی ذہن اور وہی
خیالات اپناتے ہیں جو ماں کے دماغ میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ماں کا فرض یہ ہے کہ وہ
بچے کو اپنے دودھ کے ایک ایک قطرے کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے طرز عمل کا سبق
دیتی رہے۔ دودھ کا ہر گھونٹ کے ساتھ نبئ برحقﷺ کا عشق اور دین کی محبت بھی اس کے
سراپا میں اس طرح انڈیل دے کہ قلب و روح میں اللہ کی عظمت اور رسول اللہﷺ کی محبت
رچ بس جائے۔ اس خوش گوار فریضہ کو انجام دے کر جو روحانی سکون و سرور حاصل
ہوتا ہے اس کا اندازہ ان ہی ماؤں کو ہوتا ہے جو اپنے بچوں کی پرورش حق کے ساتھ
کرتی ہیں۔
بچوں
کو ڈرانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ابتدائی عمر کا یہ ڈر ساری زندگی پر محیط
ہوجاتا ہے اور ایسے بچے زندگی میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دینے کے لائق نہیں رہتے۔
اولاد کو بات بات پر ڈانٹنے ، جھڑکنے اور بُرا بھلا کہنے سے بچے خوف زدہ ہو جاتے
ہیں۔ اس کے برعکس شفقت و محبت اور نرمی کے برتاؤ سے اولاد کے اندر اطاعت و
فرمانبرداری کے جذبات نشوونما پا کر اولاد کو باسعادت کرتے ہیں۔
اولاد
والدین کی کمر کی ٹیک بڑھاپے کا سہارا اور
خاندان کا وقار ہے اور پوری نوع ِانسان کا
سرمایہ ہے۔
ماں
باپ کا وجود اولاد کے لئے سایہ فگن آسمان کی طرح ہے۔ اگر وہ کچھ مطالبہ کریں تو ان
کو خوب دیجیے وہ دل گرفتہ ہوں تو ان کا غم غلط کیجئے۔ ان پر ناقابل برداشت
بوجھ نہ بنئے کہ وہ آپ کی موت کی تمنا
کریں اور آپ کے قرب کو دوری سے بدل دیں ۔
اپنے
بچوں کو حسب مراتب گودمیں لیجئے، پیار کیجئے، شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیریئے۔
تند خو اور سخت گیر ماں باپ سے بچے ابتداءً سہم جاتے ہیں اور پھر نفرت کرنے لگتے
ہیں۔ والہانہ جذبۂ محبت سے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ان کی فطری
نشوونما پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اولاد
کو ضائع نہ کیجئے، اولاد کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھئے۔ معاشی تنگی کی وجہ سے کبھی
نہ سوچئے کہ یہ اولاد کی وجہ سے ہے۔ خالق کائنات کا فرمان ہے:
’’اور
اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دینگے اور ہم
تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں۔‘‘
دراصل
صالح اولاد ہی آپ کے بعد آپ کی تہذیبی روایات، دینی تعلیمات اور پیغام توحید کو
زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے اور مومن نیک اولاد کی آرزوئیں اسی لئے کرتا ہے کہ وہ اس
کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیغام کو زندہ رکھے گی۔
دوسروں
کے سامنے اپنے بچوں کے عیب بیان نہ کیجئے اور نہ کسی کے سامنے ان کو شرمندہ کیجئے۔
ان کی عزت نفس کے آپ محافظ ہیں۔
بچوں
کے سامنے ان کی اصلاح سے مایوسی کا اظہار بچوں میں احساس کمتری پیدا کر دیتا ہے یا
پھر ان کے اندر ضد اور غصہ بھر جاتا ہے کہ جب ہم خراب اور ناقابل اصلاح ہیں تو
خراب ہو کر ہی دکھائیں گے۔ بچے کہانیاں سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور انہیں جو کچھ
سنایا جاتا ہے وہ ان کے حافظے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ نہایت پیار اور انسیت کے ساتھ
انہیں نبیوں کے قصے، صالحین کی کہانیاں، صحابۂ کرام کی زندگی کے واقعات اور
مجاہدین اسلام کے کارنامے اہتمام کے ساتھ سنایئے اور ان سے سنیئے بھی۔ ہزار
مصروفیتوں کے باوجود ان کے لئے وقت نکالئے۔ جب بچے خوش ہوں انہیں بتایئے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بچوں سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ بچوں کو دیکھ کر حضوؤ
نورﷺ کا چہرہ گلنار ہو جاتا تھا۔
ایک
مرتبہ ہمارے پیارے نبیﷺ حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے تھے۔ ایک بدو کو یہ دیکھ کر تعجب
ہوا تو اس نے کہا۔ ’’یارسول اللہﷺ! آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں۔ میرے دس بچے ہیں
لیکن میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔‘‘
رحمت
للعالمین کے چہرۂ مبارک پر ناگواری ظاہر ہوئی اور فرمایا۔ ’’اگر خدا نے تمہارے دل
سے رحمت و شفقت کو نکال دیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
بے
جا لاڈ پیار سے بچے ضدی اور خود سر بن جاتے ہیں۔ ہر جا و بے جا ضد پوری کرنے کی
بجائے تحمل اور بردباری کے ساتھ کوشش کیجئے۔ یہ عادت ختم ہو جائے گی۔
اللہ
تعالیٰ نے کرخت آواز کو ناپسند کیا ہے۔ بچوں کے سامنے چیخئے چلایئے نہیں کیونکہ
بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ گلا پھاڑ کر زور سے بولنا بھی کوئی قابل تعریف کام ہے۔
نرمی، خوش گفتاری اور دھیمے لہجے میں ماں باپ جب بات کرتے ہیں تو بچوں کا لہجہ خود
بخود نرم اور شیریں ہو جاتا ہے۔
عادت
ڈالئے کہ بچے اپنا کام پانے ہاتھ سے کریں۔ نوکروں کا سہارا بچوں کو کاہل، سست اور
اپاہج بنا دیتا ہے۔ ان کے اندر زندگی کے گرم و سرد حالات سے نبرد آزما ہونے کی ہمت
نہیں رہتی۔ ایسے بچے جفاکش اور محنت کوش نہیں ہوتے۔
کبھی
کبھی اپنے بچوں کے ہاتھ سے غریبوں اور مساکین کو کھانا، پیسہ اور کپڑا وغیرہ بھی
دلوایئے تا کہ ان کے اندر غریبوں کے ساتھ سلوک، سخاوت و خیرات کا جذبہ پیدا ہو۔
ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایئے۔ ان کے منہ میں نوالے دیجئے۔ ان سے بھی کہئے کہ وہ اپنے
بہن بھائیوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں۔ اس عمل سے حقوق العباد کا احساس اور انصاف
کے تقاضے اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ قالب انسان میں نمو پاتے ہیں۔
جائداد
میں لڑکی کا حصہ پوری دیانت داری اور اہتمام کے ساتھ دنیا خدا نے فرض کیا ہے۔ اس
میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ لڑکی کا حصہ دینے میں حیلہ
جوئی سے کام لینا خیانت ہے اور اللہ کے دین کی توہین کرنا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔