Topics
مومن کا معاملہ بھی خوب ہے۔ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے خیر سمیٹتا ہے۔ اگر وہ دکھ
بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور یہ
آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوش حالی نصیب ہوتی
ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوش حالی اس کے لئے خیر کا سبب بنتی ہے۔
کٹھن
حالات اور آزمائشوں کے ذریعے قدرت آدمی کی سوچ کو نکھارنے اور اس کو کندن بنانے کا
کام بھی لیتی ہے۔
مومن
کی مرضی اور رضا اسی امر میں ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے ہو اور وہ تمام امور کو
اللہ کی جانب سے سمجھتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صاحب زادے حضرت
ابراہیم پر جاں کنی کا عالم تھا اور وہ نبیﷺ کی گود میں تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر
بربنائے بشریت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن آپﷺ نے
فرمایا۔
’’اے
ابراہیم! ہم تمہاری جدائی میں مغموم ہیں مگر زبان سے وہی نکلے گا جو پروردگار کی
مرضی کے مطابق ہو گا۔‘‘
مومن
کی زندگی میں رضائے الٰہی کو کتنا دخل ہوتا ہے اس کا اندازہ نبئ اکرمﷺ کی تلقین
کردہ اس دعا سے لگایا جا سکتا ہے کہ
’’خدایا! جب تک میرے حق میں زندہ رہنا بہتر ہو زندہ رکھ اور جب میرے حق میں موت ہی
بہتر ہو تو مجھے موت دے دے۔‘‘
نبی
صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’ذوالنون(حضرت یونسؑ ) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے
پروردگار سے جو دعا کی وہ یہ تھی۔۔۔۔۔۔
لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي
كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
(تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو بے عیب و پاک ہے، میں ہی
اپنے اوپر ظلم ڈھانے والا ہوں۔)
پس
جو مسلمان بھی اپنی کسی تکلیف یا تنگی میں خدا سے یہ دعا مانگتا ہے خدا اسے ضرور
قبولیت بخشتا ہے۔‘‘
مومن
اور کافر کے کردار میں یہ فرق ہے کہ کافر رنج و غم کے ہجوم میں پریشان ہو کر
مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات مایوسی اس حد تک اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے
کہ وہ پریشان حالی اور درماندگی کی تاب نہ لا کر خود کشی کا مرتکب بن جاتا ہے۔ اس
کے برعکس مومن مصائب و آلام کو صبر و سکون کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور بڑے سے بڑے
حادثہ پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا اور صبر و استقامت کا پیکر بن کر
چٹان کی طرح اسی جگہ قائم رہتا ہے اور جو کچھ پیش آ رہا ہے اس کو اللہ کی مشیت
سمجھ کر اس میں خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔