Topics

آگ کا سمندر

 

خدا اس جہنم کا مالک ہے جس میں آگ کے سمندر کھول رہے ہیں۔ جہنم وہ مقام ہے جہاں سانپوں، اژدہوں اور بچھوؤں کا بسیرا ہے۔ اس گرم، تپتی، آتش فشاں وادی میں غذا تھوہر ہے۔ آنتوں، رگوں اور شریانوں کی سیرابی کے لئے جو مشروب ہے وہ پیپ ہے۔

اے لوگو! خدا سے ڈرو۔ خدا تمہیں ایسی سزا دے گا کہ اس سزا کے تصور سے ہی جسم پانی اور ہڈیاں راکھ بن جائیں گی۔ ایک اژدہا تمہارے اوپر نیچے مارے گا تم جہنم کی تپتی زمین میں اندر ہی اندر دھنستے چلے جاؤ گے۔ وہ اژدہا پھر تمہیں نکال لائے گا پھر تمہیں زمین کی انتہائی گہرائی میں دفن کر دے گا۔ پانی ایسا گرم ملے گا کہ ہونٹ اُبل کر لٹک پڑیں گے۔

یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمارے کانوں میں پگھلتے سیسے کی طرح انڈیلے جاتے ہیں۔ ایک کمزور و ناتواں انسان ایسے خوفناک خدا سے ڈر ڈر کر خدا کو ایک خوفناک ہستی سمجھنے لگتا ہے۔ خوفناک خدا کا تصور اسے خوف اور دہشت کے ایسے صحرا میں پھینک دیتا ہے جہاں خدا ایک ڈراؤنا وجود بن جاتا ہے۔

ہمارے دانشور، ہمارے گائیڈ محراب و منبر سے ہمیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اللہ وہ ہے جو شکم مادر میں ہمیں نو ماہ تک غذا فراہم کر کے ہماری ہر طرح نشوونما کرتا ہے۔ ہزار دو ہزار میل چل کر گھٹائیں ہماری خشک زمین پر پانی برساتی ہیں، حسین اور رنگین بہاریں زمین کو دلہن کی طرح سجاتی ہیں، آسمان پر جگ مگ کرتی قندیلیں ہماری نظر کو نور اور دماغ کو سرور بخشتی ہیں۔ خدا وہ ہے جس نے رنگ رنگ پھول زمین کی کوکھ سے پیدا کر کے انسان کے شعور میں رنگینی پیدا کر دی ہے۔ قطار در قطار درخت، پھلوں سے لدے ہوئے اشجار ہمارے منتظر ہیں کہ ہم انہیں خدمت کا موقع دیں۔ درخت کے پتے جب ہواؤں کے دوش پر جھولتے ہیں تو دراصل انسان کی تسکین روح کے لئے گیت گاتے ہیں، ہوائیں ساز بجاتی ہیں، ٹہنیاں رقص کرتی ہیں اور خود قدرت وجد میں آ جاتی ہے۔ برساتیں شرم و حیا کے لبادے میں عرق آلود پیشانی سے مستیاں لٹاتی ہے، برسات کے اندھیروں میں، برسات کی روشنی میں نور اور کیف و سرور ہوتا ہے۔ سورج برسات کی لجاجت اور حیا کے پسینے سے آنکھیں موند لیتا ہے۔ دھوپ جس کا کام جھلسا دینا ہے، نرم اور ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور فضا دھل جاتی ہے۔ درخت نیا لباس زیب تن کر لیتے ہیں۔

وہ خدا جس نے زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اتنے وسائل مہیا کر دیئے ہیں کہ اے انسان تو ان وسائل کا شمار بھی نہیں کر سکتا۔ جب تو تھک جاتا ہے تو رات تجھے تھپک تھپک کر نیند کی لوریاں سنا کر سلا دیتی ہے اور جب سوتا رہتا ہے تو دن آہستہ خرام تیرے گرد ساز و آواز کے ساتھ مدھم مدھم دستک دے کر تجھے بیدار کر دیتا ہے۔

اے ہمارے دانشور، ہمارے گائیڈ تم اس خدا کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے جس نے ہمارے اندر ایک مشین نصب کر دی ہے جس کا ہر پرزہ ہمارے اختیار اور ہمارے اراد ے کے بغیر چل رہا ہے۔ دل سارے جسم کو شاداب رکھنے کے لئے خون دوڑا رہا ہے، دماغ اعصابی نظام کو بحال رکھنے کے لئے تواتر کے ساتھ زندگی کی اطلاع دے رہا ہے۔ آنتیں غذا کو جزو بدن بنا رہی ہیں۔ آنکھیں مناظر قدرت کی ویڈیو فلم بنا رہی ہیں۔

اے ہمارے دانشورو، ہمارے رہنماؤ!

تم کیوں صرف ایسے خدا کا تذکرہ کرتے ہو کہ انسان جس خدا کو خوفناک ہستی، ڈراؤنی ذات سمجھ کر رات دن ڈرتا رہے، لرزتارہے، جسم کا ہر عضو کانپتا رہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ڈر اور خوف دوری اور جدائی کا اکسیری نسخہ ہے۔ یہ کون نہیں تسلیم کرے گا کہ ڈر گھٹن ہے، ڈر اضطراب ہے، ڈر بے چینی ہے، ڈر اور خوفناکی دو دلوں میں جدائی کی ایک دیوار ہے۔

اے میرے بزرگو! میرے اسلاف کی نیابت کے دعویدارو! اگر تمہیں یہ یقین ہو جائے کہ تمہارا باپ ایک خوفناک ہستی ہے اور وہ تمہارے وجود کو جلا کر خاکستر کر دے گا تو کیا تم اس کے قریب ہو جاؤ گے؟

دنیا کا قانون ہے کہ امن پسند شہریوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ حاکم امن پسند شہریوں کو اچھا ہی نہیں سمجھتا بلکہ ان سے محبت بھی کرتا ہے، ان کی صحت، ان کی ضروریات کا انتظام کرتا ہے۔

اے میرے دانشورو!

تم اپنے پیچھے چلنے والی بھیڑکو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ قانون کی پاسداری کرو، حاکم اپنے فداکاروں اور اپنی اطاعت کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اگر تم اللہ کے پھیلائے ہوئے وسائل کو صبر و شکر کے ساتھ خوش ہو کر استعمال کرو گے تو اللہ خوش ہو گا، اس لئے خوش ہو گا کہ یہ سارے وسائل تمہارے ہی لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ آج کا انسان اگر اچھا لباس پہننا ترک کر دے اور موٹا جھوٹا کھدر کا لباس پہننے لگے تو ہزاروں فیکٹریاں بند ہو جائیں گی۔ فیکٹریاں بند ہو جانے سے لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں گے۔ آسائش و آرام کے وسائل سے فائدہ اٹھانا منسوخ کر دیا جائے تو اللہ کی مخلوق تہی دست اور مفلوک الحال ہو جائے گی۔ شکر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو استعمال کیا جائے اور صبر یہ ہے کہ بندہ راضی بہ رضا رہے اور جب بندے شکر کا کفران کرتے ہیں اور صبر سے خود کو آراستہ نہیں کرتے تو ان کے دلوں میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو جاتی ہے، اس دنیا کی محبت جو عارضی اور فانی ہے۔ خدا نہیں چاہتا کہ عارضی اور فنا ہو جانے والی دنیا کو مقصد زندگی قرار دے دیا جائے۔ خدا چاہتا ہے کہ انسان سکون کے گہوارے میں ابدی زندگی تلاش کرے اور دنیا کے تمام ساز و سامان اور وسائل کو راستے کا گرد و غبار سمجھے۔

اگر تم سعادت مند ہو تو شر سے بچتے رہو کہ اللہ بچنے والوں پر ہمیشہ رحم کرتا ہے۔ رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو۔ اور بے جا خرچ نہ کرو کہ دولت اڑانے والے شیطان کے بھائی ہوتے ہیں اور تم جانتے ہو کہ شیطان اللہ کا باغی ہے۔ اگر تم تہی دست ہو اور کچھ نہیں دے سکتے لیکن خدا کی رحمت کی امید ضرور رکھتے ہو تو ان لوگوں کو نرمی سے ٹال دو۔ تم نہ کنجوس بنو اور نہ اتنے فضول خرچ کہ کل نادم ہونا پڑے اور لوگ تمہیں طعنے دیں۔

وعدوں کو پورا کرو کہ وعدوں سے متعلق باز پرس کی جائے گی۔ جب ناپوتو پورا ناپو۔ پورے اور صحیح ترازو سے تولو۔ یہ خیر ہے، اس کا نتیجہ اچھا ہو گا۔ کسی ایسی خبر کے پیچھے مت چل پڑا کرو جس کے متعلق تم کو یقینی علم حاصل نہ ہو اس لئے کہ کان، آنکھ اور دل سب کے متعلق ہم جواب طلب کرینگے۔ زمین پر اکڑ کر مت چلو کہ تم نہ تو ہماری زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کے برابر ہو سکتے ہو۔ یہ وہ حرکات ہیں جنہیں ہم سخت ناپسند کرتے ہیں۔




Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔