Topics
دعوت اور تبلیغ دین حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مشن ہے۔ اس لئے پورا خیال رکھیئے
کہ اس دعوت کا طریق کار حکمت اور سلیقہ سے مزین اور ہر لحاظ سے موزوں، بروقت اور
پر وقار ہو۔ مخاطب کی فکری رسائی اور ذہنی کیفیت کے مطابق بات کیجئے۔ لوگوں میں
حسن ظن، خیر خواہی اور خلوص کے جذبات ابھاریئے۔ ہٹ دھرمی، تعصب اور نفرت کو ختم
کیجئے۔
تحریر
و تقریر میں عذاب اور خوف پر اتنا زور نہ دیجئے کہ لوگ اللہ کی رحمت سے نا امید ہو
جائیں۔ بلکہ عذاب اور خوف کے ایک مختصر پہلو کے مقابلے میں اللہ کے لامحدود اور
وسیع دامن رحمت کو پیش کیجئے جس میں پوری کائنات سجائی ہوئی ہے۔ اور جس کی بنیاد
پر تمام مخلوقات کا وجود ہے۔
ہمارے
لئے ضروری ہے کہ جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کریں اس کا مخاطب سب سے پہلے اپنی
ذات کو بنائیں۔ جن حقیقتوں کو قبول کرنے میں ہم دنیا کی بھلائی دیکھیں پہلے خود کو
اس کا حریص بنائیں۔ انفرادی عمل، خانگی تعلقات، اخلاقی معاملات اور اللہ سے ربط کے
معاملے میں یہ ثابت کریں کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا نمونہ ہم خود ہیں۔
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معراج کے بیان میں کچھ لوگوں کی درد ناک حالت کا ذکر کرتے
ہوئے فرمایا:
’’میں
نے جبرئیل سے پوچھا کہ کون لوگ ہیں، جبرئیل نے جواب دیا، یہ آپ کی امت کے وہ
مقررین ہیں جو لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کرتے تھے اور خود کو بھولے ہوئے
تھے۔‘‘
اللہ
کی رضا کے حصول اور اس کے راستے کی طرف دعوت دینے کا مؤثر ذریعہ مخلوق خدا کی بے
لوث خدمت ہے۔ ایسی خدمت جو خالص انسانی قدروں اور خلوص و محبت اور خیر خواہی کے
جذبات پر قائم ہو‘ نہ کہ بدلے اور گھٹیا سودے بازی پر۔ اللہ کی مخلوق سے محبت کا
تعلق استوار رکھنا اور اللہ کی مخلوق ہونے کے ناطے سے ان کی خدمت کرنا خالق کی رضا
اور خوشنودی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔