Topics

رزق


ہم اللہ کی زمین میں کسی درخت کا بیج بوتے ہیں۔ زمین اپنے بطن میں اس بیج کو نشوونما دے کر اپنی کوکھ سے باہر نکالتی ہے۔ اس درخت یا بیل میں دو نازک پرت ہوتے ہیں۔ دو الگ الگ پرت ایک ننھی سی شاخ پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ بیج جو ہم نے زمین میں بویا تھا، دو حصوں میں تقسیم ہو کر اس شاخ کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ جب درخت یا بیل کی جڑ ذرا مضبوط ہو جاتی ہے تو یہ دونوں پرت جھڑ جاتے ہیں اور شاخ میں ایک نیا شگوفہ کھل اٹھتا ہے اور پھر نمو اور نشوونما کا سلسلہ اتنا دراز ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا بیج درخت بن کر اللہ کی مخلوق کے لئے روزی اور غذا کا وسیلہ بن جاتا ہے۔

کیا ہم کبھی اس بات پر غور کرتے ہیں:

ماں کے پیٹ میں نہ کوئی پھل دار درخت ہے اور نہ وہاں دودھ یا غلہ موجود ہے۔ بچہ ایک قانون، ایک ضابطہ، ایک اصول اور ایک نظام کے تحت پیٹ کی اندرونی کوٹھری میں توازن کے ساتھ لمحوں، منٹوں، گھنٹوں، دن اور مہینوں کے وقت کے تطابق کے ساتھ پرورش پاتا رہتا ہے۔ پیدا ہوتا ہے تو اس کی غذا کی کفالت کے لئے دو چشمے اُبل پڑتے ہیں اور جب بچہ غذا کے معاملے میں خود کفالت کی طرف دو قدم آگے بڑھتا ہے تو وہ سوتے جن سے چشمہ اُبل رہا تھا خشک ہو جاتے ہیں۔ وہ ماں جس کی ازلی خواہش بچے کو سینے سے چمٹا کر دودھ پلانا تھا، اب بچے کی غذا کا اہتمام دوسری طرح کرتی ہے اور ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا اللہ ماں کی مامتا کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے زمین کی کوکھ کو ماں بنا دیتا ہے اور زمین ہماری ماں بن کر ہمیں وہ تمام وسائل مہیا کرتی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ سب کیوں ہے، قدرت ہماری خدمت میں اس فیاضی اور دریا دلی سے کیوں مصروف و منہمک ہے؟

قدرت چاہتی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم قدرت کی نشانیوں پر غور کر کے نیکو کاروں کی زندگی بسر کریں، اس لئے کہ نیکو کاری قدرت کی حسین ترین صنعت ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ اس کی صنعت میں بدنمائی نہ ہو۔

سورۂ یونس میں ارشاد ہے:

ہم نیکو کاروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دینگے بلکہ کچھ زیادہ ہی عطا کرینگے، ان کے چہروں کو ذلت اور مسکنت کی سیاہی سے محفوظ رکھیں گے اور جنت میں انہیں دائمی سکون حاصل ہو گا۔

اور بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دی جائے گی، ان کے چہرے ذلت اور رسوائی سے سیاہ پڑ جائیں گے اور ان کا مستقل ٹھکانا دوزخ ہو گا۔

نیکو کاری یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کو پہچان لے اور محروم القسمت لوگ وہ ہیں جو اپنے خالق کا عرفان حاصل نہیں کرتے۔ خالق کا عرفان حاصل کرنے کے لئے خود اپنی ذات کا عرفان ضروری ہے اور اپنی ذات کا عرفان یہ ہے کہ ہم اپنے اندر موجود اللہ کے نور کا مشاہدہ کریں۔



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔