Topics

بلیک مارکیٹنگ

انسان جب کسی شعبۂ حیات میں قدم رکھتا ہے تو اس کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس نے زندگی کے جس شعبے کو اختیار کیا ہے اس سے صیح لطف اٹھانے اور زندگی کو صحیح طرح گزارنے کے لئے اس کے سامنے کوئی اچھا نمونہ ہو۔ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ قدم قدم پر پیش آنے والے مسائل کو اپنے اسلاف کے تجربوں سے حل کرے اور ان تجربوں کی روشنی میں اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا سکے۔

ہمارا اللہ، ہمارا سب سے بڑا بزرگ، سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا ہمدرد ہے۔ اللہ نے ہماری زندگی کو سنوارنے کے لئے پہلے تو قوانین بنائے اور پھر ان قوانین کو اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچایا۔ یہ سارے قانون ایسے ہیں کہ اس میں اللہ کی کوئی ضرورت، کوئی حاجت، کوئی ذاتی منفعت نہیں ہے۔ سارے قوانین ہماری بھلائی کے لئے ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں نے جب نوع انسانی کو اچھی طرح برائی اور بھلائی کے تصور سے آگاہ کر دیا تو اللہ نے ، ہمارے دوست اللہ نے اس قانون کو آخری شکل دے کر سیل بند کر دیا تا کہ اس میں کوئی رخنہ در انداز نہ ہو۔ ہمارا دوست اللہ رب العالمین ہے اور اللہ کے دوست رحمت للعالمینﷺ ہیں۔ رب العالمین کے دوست رحمت للعالمینﷺ جب اس دنیا میں تشریف لائے تو آپﷺ نے اپنے بھائی پیغمبروں کے بنائے ہوئے قوانین کو سامنے رکھ کر اور ان کی امتوں نے جو قانون میں تحریف کی تھی، اس کے پیش نظر نوع انسانی کے لئے ایک ضابطۂ حیات بنایا اور اس ضابطے کو اپنی زندگی کے ایک ایک شعبے پر نافذ کر کے نوع انسانی کے لئے مثال پیش کی۔

اللہ رب العالمین کے دوست رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ابن عبداللہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ان تمام امور سے تعبیر ہے جس سے نوع انسانی قیامت تک گزرتی رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری زندگی آپ کی سیرت ہے۔ سرور عالمﷺ کی سیرت کا کمال یہ ہے کہ وہ بیک وقت زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ آپﷺ کی حیات طیبہ کسی خاص جماعت، کسی خاص قوم، کسی خاص ملک اور کسی خاص زمانے کے لئے نہیں تھی اور نہ ہے۔ آپﷺ کی زندگی آپﷺ کی سیرت رب العالمین کے بنائے ہوئے سارے عالمین کے لئے ہے۔ دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ کی منور زندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔ آپ کی زندگی میں ادب و اخلاق، معاشرت و معیشت، حسن اخلاق، عدل اور ایفائے عہد کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو ہمیں آپﷺ کی حیات میں نہ ملتا ہو۔

تجارت: ایک تاجر، کاروباری انسان کی زندگی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ حسن معاملہ کا خوگر ہو اور ایفائے عہد کا پابند ہو اور اس کے اندر حوصلہ ہو۔ اگر کسی تاجر کی زندگی میں یہ تینوں وصٖف نہ ہوں تو وہ کبھی اچھا تاجر نہیں بن سکتا۔

ایفائے عہد: ایک صحابی بیان فرماتے ہیں کہ نبوت سے پہلے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے تجارتی معاملہ کیا تھا۔ ابھی وہ معاملہ پورے طور پر طے نہیں ہوا تھا کہ میں کسی ضرورت سے یہ وعدہ کر کے چلا آیا کہ میں ابھی آتا ہوں۔ اتفاقاً ایک لمبے وقفے کے بعد جب مجھے اپنا وعدہ یاد آیا تو میں اس جگہ پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ میرا انتظار فرما رہے ہیں۔ میری اس پیمان شکنی اور لاپروائی پر بغیر کسی ناراضگی کے ارشاد فرمایا۔ ’’تم نے مجھے بہت زحمت دی۔ میں بہت دیرسے تمہارا منتظر ہوں۔‘‘

عدل و انصاف: مکہ فتح ہونے کے بعد عرب میں صرف طائف باقی رہ گیا تھا جو فتح نہیں ہوا تھا۔ مسلمان بیس روز تک طائف کا محاصرہ کئے رہے مگر طائف فتح نہیں ہوا اور مسلمانوں کو محاصرہ اٹھا لینا پڑا۔ صخر ایک رئیس تھا۔ اس نے طائف والوں کو اتنا مجبور کیا کہ وہ صلح پر آمادہ ہو گئے۔ صخر نے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ جب طائف اسلام کے ماتحت آ گیا تو مغیرہ بن شعبہ جو طائف کے رہنے والے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں۔ صخر نے میری پھوپھی پر قبضہ کر لیا ہے۔ میری پھوپھی صخر سے واپس دلائی جائے۔ اس کے بعد نبو سلیم آئے اور انہوں نے کہا کہ صخر نے ہمارے چشموں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہمارے چشمے واپس دلائے جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا۔ ’’اگرچہ صخر نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے لیکن احسان کے مقابلے میں انصاف کا دامن کبھی نہیں چھوٹنا چاہئے۔‘‘ اسی وقت آپﷺ نے صخر کو حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو اور نبو سلیم کے پانی کے چشمے واپس کر دو۔

دوستی اور تعلقات پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ دوستی اور محبت کی بنیادیں خلوص، باہمی ارتباط اور ایک دوسرے کی ہمدردی سے مستحکم ہوتی ہیں۔ دیکھئے کہ آپ بحیثیت ایک دوست اور ساتھی ہونے کے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے۔

ایک سفر میں صحابہ کرام نے کھانا پکانے کا انتظام کیا۔ اور ہر ایک نے ایک ایک کام اپنے ذمے لے لیا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤں گا۔ صحابہؓ نے کہا کہ ہمارے ماں باپ قربان، آپ کو زحمت فرمانے کی ضرورت نہیں، ہم سب کام خود انجام دے لیں گے۔ ارشاد فرمایا۔ یہ صحیح ہے لیکن خدا اس بندے کو پسند نہیں کرتا جو دوسروں سے اپنے آپ کو نمایاں کرتا ہو۔

معیشت: آپﷺ نے مزدوروں کی مشکلات  حل کرتے ہوئے فرمایا کہ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کی جائے۔ آپﷺ سرمایہ دارانہ ذہنیت، سرمایہ دارانہ اخلاق اور سرمایہ دارانہ نظام کا قلع قمع کر کے دنیا پر خوش حالی، امن اور بلند اخلاقی کے دروازے کھول دیئے۔

خود غرض اور نفس پرست سرمایہ داروں نے جن مصیبتوں کو انسانوں پر مسلط کیا ہے وہ بلیک مارکیٹنگ اور چور بازاری ہے جو غریبوں کے لئے عذاب الیم سے کم نہیں ہے۔ آپﷺ نے ان لوگوں پر جو غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو محض نفع اندوزی کی خاطر روک کر رکھتے ہیں، بہت بڑی ذمہ داری عائد کی ہے۔

آپﷺ نے فرمایا۔ ’’جو لوگ غذائی اجناس اور دوسری اشیاء کو ذخیرہ کر لیتے ہیں تا کہ بازار میں مصنوعی قلت ہو جائے اور قیمت بڑھ جائے تو وہ بڑے گناہ گار ہیں۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا:’’اللہ اس آدمی پر رحم کرتا ہے جو خریدنے، بیچنے اور تقاضا کرنے میں نرمی اختیار کرتا ہے۔‘‘

 

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔