Topics

کفن دفن


ہمارے ایک دوست حاجی صاحب پژمردہ دل نم ناک آنکھوں کے ساتھ سڑک پر تیز قدموں سے چل رہے تھے۔ میں نے سلام کیا اور پژمردہ دلی اور گھبراہٹ کے ساتھ تیز رفتاری کی وجہ پوچھی۔ بولے، میرے دوست حاجی رمضان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے تعزیت کی اور کہا  كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ مرحلہ ہر شخص کے ساتھ پیش آتا ہے۔ آپ اور میں بھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں زندگی کے دھارے موت کی طرف بہنے لگتے ہیں۔ آج حاجی رمضان صاحب اپنے پس ماندگان کو داغ مفارقت دے گئے، کل یہی سب کچھ ہم کرینگے۔ یہ ایک ایسا مسلسل اور متواتر عمل ہے جو یوم آفرینش سے جاری ہے اور یوم قیامت تک جاری رہے گا۔ حاجی صاحب بہت خوب اور مرنجان مرنج مزاج کے آدمی تھے۔ میری تقریر آمیز گفتگو سن کر بولے، بات یہ نہیں ہے کہ حاجی رمضان کیوں مرا، بات یہ ہے کہ اس کے ورثا سفر آخرت میں اس کے لئے دیوار بن گئے ہیں۔ حاجی رمضان کی چار لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ مال و اسباب اتنا ہے کہ صحیح معنوں میں اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ موت کی خبر سن کر چاروں لڑکیاں، چاروں داماد اور دوسرے عزیز و اقربا تجہیز و کفن کے لئے کوٹھی میں جمع ہو گئے۔ اس وقت مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جائیداد کی تقسیم ہو جائے تب جنازہ اٹھے گا۔ میں ان کا دوست ہوں۔ عمر میری اتنی ہے کہ بھنویں بھی سفید ہو گئی ہیں۔ میں نے چاہا کہ تقسیم کا معاملہ کفن دفن کے بعد طے ہو جائے مگر صاحب وہاں تو کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ دونوں طرف کے وکیل ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور دھن دولت کے ساتھ ساتھ گھر میں موجود زیورات و جواہرات اور دوسرے اثاثوں کی فہرست تیار ہو رہی ہے۔ سب لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جب تک بھائی بہنوں کو باپ کا چھوڑا ہوا اثاثہ تقسیم نہ کر دے اس وقت تک جنازہ نہیں اٹھے گا۔ اس نفسا نفسی میں حالات یہ ہیں کہ حاجی رمضان کی لاش پانی بن کر بہنے لگی ہے۔ برف کی سیلوں سے کمرہ بھرا ہوا ہے۔ ایک طرف برف کا جگر پانی بن کر بہہ رہا ہے اور دوسری طرف حاجی رمضان کے جسم کے اندر کی چکنائیاں سڑاند بن کر پانی بن رہی ہیں۔ حاجی رمضان میرا دوست ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی دوست کسی دوست کی اتنی زیادہ بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں پریشان ہوں۔ میں بہت غمگین ہوں۔ اتنا اداس ہوں کہ لگتا ہے کہ عقل و شعور نے مجھ سے اپنا ناطہ توڑ لیا ہے۔۔۔۔۔۔حاجی صاحب کا کیا بنا، کب ان کا جنازہ گھر سے رخصت ہوا اس کے بارے میں کھوج لگانے کی ہمت نہیں ہوئی۔

یہ واقعہ سننے کے بعد میرے دل کی دنیا زیر و زبر ہو گئی۔ میں نے جب اس بھیانک صورت حال پر غور کیا تو قرآن پاک کی ایک آیت ذہن میں دور کرنے لگی:

’’اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کر ڈالتے ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔‘‘

قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم ذہن میں آیا تو دماغ کے اندر موجود تفکر کا ایک دروازہ کھلا اور یقین محکم یہ بنا کہ دولت کے انبار جمع کرنے کے نتائج الم ناک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عموماً اپنی صحت کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ دل کمزور، جگر ناکارہ، ذیابیطس، فشار خون، جنسی بیماریاں، گردوں میں ریت، پھیپھڑوں میں زخم، پتے میں پتھری، آنتوں میں پیچش کے جراثیم اور نہ جانے کن کن مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نیند اڑ جاتی ہے، سکون روٹھ جاتا ہے اور دوسروں کی محبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ دوستوں میں، رشتہ داروں میں اور عوام میں ان کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔ لوگ اگر محبت کا اظہار کرتے ہیں تو وہ دراصل ان کی ذات کا احترام نہیں ہوتا، ان کے پاس جو آنی جانی دولت ہے اس کا احترام کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ان کا خاتمہ عبرت ناک ہوتا ہے۔ پس ماندگان میں اولاد پر جوانی کا بھوت سوار ہو جاتا ہے تو وہ مادر پدر آزاد ہو کر تعلیم کو طاق نسیاں میں سجا کر حسن آباد کی طرف نکل جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ زندہ ہوتے ہیں اور ماں باپ کے بڑھاپے کا واحد سہارا برخوردار کے دو بڑے ٹھکانے بن جاتے ہیں، ایسے دو بڑے ٹھکانے جہاں سے بے شمار برائیوں کے دھارے بہتے ہیں۔ ماں باپ سمجھاتے ہیں، منت کرتے ہیں، خون کے آنسو روتے ہیں، پوری پوری رات بیٹے کے انتظار میں ٹہل ٹہل کر گزارتے ہیں لیکن بیٹے پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کب دنیا کا کوئی ایک فرد بھی کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی اولاد اور ایسی دولت زندگی میں مسرت اور شادمانی کا پیغام دے سکتی ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں!

ایسی دولت اور ایسی اولاد بلاشبہ ایک عذاب ہے۔ دولت کے دو رخ ہیں۔ دولت کا ایک رخ تو یہ ہے کہ انسان کو دولت عذاب بن کر، جہنم بن کر خاکستر کر دیتی ہے۔ دولت کا دوسرا روپ یہ ہے کہ دل و دماغ رنگینیوں، رعنائیوں، قناعت، مسرت اور شادمانیوں سے معمور ہو جاتا ہے۔ اس روپ کا دولت مند بیواؤں اور یتیموں کے لئے پناہ گاہیں تعمیر کرتا ہے، سینکڑوں بپتاؤں اور مصیبتوں سے دوسروں کے لئے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ حیوان محض بن کر زندہ نہیں رہتا۔ دل کی دنیا میں جگ مگ روشن قمقمے سجا کر دل کی دنیا کو آباد کر لیتا ہے۔ وہ عقل کے لحاظ سے احمق اور آنکھوں کے لحاظ سے اندھا نہیں ہوتا۔ حیوانیت سے دور ہوتا ہے اور اس عادت کو اپنا لیتا ہے جو عادت اللہ رب العالمین رازق کی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے مسلمانوں پر حیرت ہے کہ ہر شخص دولت مند بننا چاہتا ہے لیکن حضرت عثمانؓ کوئی نہیں بننا چاہتا۔ ان کے لئے سورۂ توبہ میں وعید ہے:

ترجمہ: تمہیں ان کے مال و اولاد پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارا ارادہ یہ ہے کہ اس دنیا میں مال و اولاد کو ان کے لئے ایک مستقل عذاب بنا دیں اور وہ اسی کا فرانہ زندگی کے ساتھ اس جہان سے رخصت ہو جائیں۔

رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پاک ہمیں بتاتی ہے کہ حضورﷺ نے کبھی دولت جمع نہیں کی۔ حضورﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرامؓ کا عمل یہ تھا کہ ایران و روم کی دولت کے انبار ان کے سامنے تھے لیکن یہ قدسی نفس حضرات پچیس لاکھ مربع میل قلمرو پر حکومت کرنے کے باوجود مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالتے تھے اور مزدوری سے جو کچھ بچتا تھا وہ خیرات کر دیتے تھے۔

دنیا میں دولت سے زیادہ بے وفا کوئی چیز نہیں ہے۔ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ دولت ہر جائی ہے۔ دولت ایک ایسا بزدلانہ تشخص ہے کہ جو دولت کو پوجتا ہے دولت اس کو تباہ و برباد کر دیتی ہے لیکن جو بندہ دولت کی تحقیر کرتا ہے، سر پر رکھنے کے بجائے دولت کو پیروں کی خاک سمجھتا ہے دولت اس کے آگے پیچھے دوڑتی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔ یہ معین مقداریں ہی تشخص بناتی ہیں۔ یہ معین مقداریں ہی باوجود یہ کہ ایک انسان دوسرے انسان میں اپنے ارادے اور اختیارسے جذب ہو جاتا ہے لیکن سینٹی میٹر کے ہزارویں حصے کے برابر خلا نہ ہونے کے باوجود دونوں انسان الگ الگ رہتے ہیں۔ قانون یہ بنا کہ مقداروں میں تعین ہی انفرادیت اور تشخص قائم کرتا ہے۔ کوئی انسان اس تخلیقی قانون کو توڑ نہیں سکتا۔

جس طرح ایک انسان ادراک رکھتا ہے ۔اسی طرح دولت بھی ادراک سے خالی نہیں ہے۔ جب کوئی انسان دولت کے تشخص سے فرار اختیار کرتا ہے تو مقداروں کے قانون کے مطابق توازن برقرار رکھنے کے لئے دولت اس کے پیچھے بھاگتی ہے اور جب کوئی انسان دولت کے پیچھے بھاگتا ہے تو دولت اس کے ساتھ بے وفائی کرتی ہے اور عذاب بن کر اس کے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔

 

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔