Topics
کاروبار میں حسن اخلاق کاروباری ترقی کے لئے ضمانت ہے۔ دکاندار کی حیثیت سے آپ کے
اوپر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
۱۔
یہ کہ خریداروں کو اچھے سے اچھا مال فراہم کریں۔ جس مال پر آپ کو خود اعتماد نہ ہو
وہ ہرگز کسی کو نہ دیں۔
۔
آپ کو اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ خریدار آپ کے اوپر اعتماد کریں، آپ کو
اپنا خیر خواہ سمجھیں، آپ سے متاثر ہوں اور ان کو پورا پورا اعتماد ہو کہ آپ کی
دکان یا کاروبار سے انہیں کبھی دھوکا نہیں دیا جائے گا۔
۳۔
اگر کوئی خریدار آپ سے مشورہ طلب کرے تو بالکل صحیح صحیح اور مناسب مشورہ دیں چاہے
اس میں آپ کا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو۔
۴۔ وقت کی پابندی کا پورا خیال رکھیں اور دکان صحیح وقت پر کھولیں اور صبر کے ساتھ
دکان پر جم کر بیٹھے رہیں۔ صبح بہت سویرے بیدار ہو کر فرائض ادا کرنے کے بعد رزق
کی تلاش میں نکل جانے سے خیر و برکت ہوتی ہے۔
۵۔
خود بھی محنت کیجئے اور ملازمین کو بھی محنت کا عادی بنایئے اور ملازمین کے حقوق
فیاضی اور ایثار کے ساتھ پورے کیجئے۔ ملازمین کاروباری فروغ میں آپ کے ہاتھ پیر
ہیں۔ ہمیشہ ان کے ساتھ پیار و محبت اور نرمی کا سلوک کریں۔
۶۔
قرض مانگنے والوں کے ساتھ سختی نہ کریں۔ قرض کی ادائیگی میں انہیں اگر پریشانی ہو
تو ان سے تقاضے میں شدت اختیار نہ کریں۔ اللہ کے حبیبﷺ کا فرمان ہے
جس
شخص کی خواہش ہو کہ خدا اس کو روز قیامت کے غم اور گھٹن سے بچائے رکھے تو اسے
چاہئے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتار دے۔
۷۔
تول کا حق پورا کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ناپ تول میں، لینے اور دینے دونوں
میں پوری دیانت داری اختیار کی جائے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
ناپ
تول میں کمی کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں سے لیتے وقت پورا وزن اور پورا
ناپ لیں اور جب دوسروں کو دینے کا وقت آئے تو تول یا ناپ کم کر دیں۔ کیا یہ لوگ
نہیں جانتے کہ یہ زندہ کر کے اٹھائے بھی جائیں گے، ایک بڑے ہی سخت دن میں جس دن
تمام انسان اللہ رب العالمین کے حضور کھڑے ہونگے۔ (قرآن)
پیارے
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے۔ نبئ برحق علیہ الصلوٰۃ
والسلام سے کوئی بات پوچھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا۔ ’’تمہارے
گھر میں کچھ سامان بھی ہے؟‘‘
صحابئ
رسول نے عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہﷺ! صرف دو چیزیں ہیں۔ ایک ٹاٹ کا بستر ہے جسے ہم
اوڑھتے بھی ہیں اور بچھاتے بھی ہیں اور ایک پانی پینے کے لئے پیالہ ہے۔‘‘
آپﷺ
نے فرمایا۔’’یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔‘‘
صحابی
دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوئے۔ آپﷺ نے دونوں چیزیں دو درہم میں نیلام کر دیں اور
دونوں درہم ان کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’جاؤ!ایک درہم میں تو کچھ کھانے پینے
کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے آؤ اور ایک درہم میں کلہاڑی خرید لاؤ۔‘‘
پھر کلہاڑی میں آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے دستہ لگایا اور فرمایا۔ ’’جنگل سے
لکڑیاں کاٹ کاٹ کر لاؤ اور بازار میں فروخت کرو اور پندرہ روز کے بعد آ کر ساری
روئداد سناؤ۔‘‘
پندرہ
دن کے بعد جب وہ صحابی حاضر ہوئے تو ان کے پاس دس درہم تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و
سلم نے خوش ہو کر فرمایا۔ ’’یہ محنت کی کمائی تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم
لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرو اور قیامت کے روز تمہارے چہرے پر بھیک مانگنے کا
داغ ہو۔‘‘
ایک
بار رحمت للعالمین حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے لوگوں نے پوچھا۔
’’یا
رسول اللہﷺ! سب سے بہتر کمائی کون سی ہے؟‘‘
فرمایا۔
’’اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ کاروبار جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو۔‘‘
اس
حکم کی تعمیل میں ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم دین پر مضبوطی کے ساتھ
قائم رہتے ہوئے کاروبار کریں۔ ہمیشہ سچائی اور راست گوئی سے کاروبار کو فروغ دیں۔
اپنے سامان کو اچھا ثابت کرنے یا گاہک کو متاثر کرنے کے لئے قسمیں نہ کھائیں۔
نبئ آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔ ’’قیامت کے روز خدا تعالیٰ نہ
اس شخص سے بات کرے گا، نہ اس کی طرف رخ کر کے دیکھے گا اور نہ اس کو پاک صاف کر کے
جنت میں داخل کرے گا جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کاروبار کو فروغ دینے کی کوشش
کرتا ہے۔‘‘
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’سچا
اور ایمان دار تاجر قیامت میں نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ساتھ ہو گا۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔