Topics

مذہب اور نئی نسل


مذہب کا جب تذکرہ آتا ہے تو مسلمان اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ سنت کی پیروی مذہب اسلام ہے اور اتباع سنت ہی اپنے پیغمبر کی محبت کی سب سے بڑی علامت ہے کیونکہ اگر محبوب کا ہر عمل محبوب نہیں ہے تو محبت میں صداقت نہیں ہے۔ اتباع سنت کی غرض و غایت صرف محبت کا اظہار ہی نہیں بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر عمل کی تقلید کرنا ہے۔ اللہ کے ارشاد کے مطابق ہم محبت رسولﷺ بن کر محبوب خدا بن جاتے ہیں۔

’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ (القرآن)

اتباع سنت کے بارے میں بلا شبہ تفکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اتباع سنت سے مراد محض چند اعمال کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ ظاہر اعمال و اعتقادات کے مقابلے میں ان کے اندر حقیقت بھی تلاش کرنا چاہئے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ارکان ظاہری ہیں۔ ان ارکان ظاہری میں اگر تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن نہ ہو تو دل کی پاکیزگی اور نفس کی صفائی نہیں ہوتی۔ نفس کی صفائی اور دل کی پاکیزگی ہی معرفت الٰہی اور تقربِ ربانی کی راہبر ہے اور یہی کل روحانی ترقی اور باطنی اصلاح کی معراج ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پس جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کا آرزو مند ہے اسے چاہئے کہ اپنے اللہ کی عبادت میں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘

کیا کوئی ایک آدمی بھی اس بات کا دعویٰ کر سکتا ہے کہ پروردگار کے ملنے کا عمل رسمی عبادت سے پورا ہو سکتا ہے۔ یا رسمی عبادت کے صلے یا کسی جسمانی ریاضت کے نتیجے میں یا محض ظاہری اتباع سنت سے کوئی بندہ اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اتباع سنت سے اللہ تک رسائی کے لئے اطمینان قلب کی ضرورت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کامل اخلاق کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم سچے دل سے مذہب کو مانتے ہیں، اگر ہم خلوص نیت سے سنت نبوئ پر چلنا چاہتے ہیں، اگر فی الواقع رحمت اللعالمین کے حبیب اللہ رب العالمین سے ملنے کے آرزو مند ہیں تو ہم کو اتباع سنت میں پورا پورا داخل ہونا پڑے گا۔

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان اعمال کو یا ان باتوں پر عمل کر کے اتباع سنت میں داخل ہونا چاہتے ہیں جو ہمارے لئے آسان ہیں۔ ہم چند آسان اور سرسری باتوں کو تمام سنت نبویﷺ میں محیط کر دینا چاہتے ہیں اور دنیا کو یہ تاثر دیتے ہیں گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ساری خوبیوں کا خلاصہ یہی چند سنتیں ہیں۔

کیا اتباع سنت یہی ہے کہ ہم میز پر کھانا کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ کبھی آپﷺ نے ایسا نہیں کیا، لیکن کبھی اس بات کا بھولے سے بھی خیال نہیں کریں کہ آپﷺ کی غذا لذیذ اور پر تکلف سے پرتکلف اور حلق تک ٹھونس لینا اور اپنے بھائیوں اور فاقہ زدوں سے ایسی لاپروائی اور بے اعتنائی برتنا کہ جیسے ان کا زمین پر وجود ہی نہیں۔ پائینچے ٹخنوں سے ذرا نیچے ہو جائیں تو گناہ کبیرہ، لیکن اگر لباس کبرونخوت، نمود و نمائش کا ذریعہ بن جائے تو کوئی اعتراض نہیں۔ یہ کون سا اسلام ہے کہ ہم نمازیں قائم کریں مگر برائیوں سے باز نہ آئیں۔ روزے رکھیں مگر صبر کے بجائے حرص و ہوس، غصہ، بدمزاجی کا مظاہرہ کریں۔ جب کہ رسول اللہﷺ کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بندے کی ایک غیبت کرنے سے روزہ نماز اور وضو سب کچھ فاسد ہو جاتا ہے۔

اتباع سنت کا اتنا چرچا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بندہ سراپا رسولﷺ اللہ کی محبت میں غرق ہے مگر جب عملی زندگی سامنے آتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمان کون سی سنت کا اتباع کر رہا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گھریلو زندگی کا تذکرہ آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے گھر میں بستر ایک بوریا تھا اور چمڑے کے تکئیے میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس کبھی سات برتنوں سے زیادہ آٹھواں برتن نہ ہوا۔ ہم جب رسول اللہﷺ کی اس عملی زندگی کے مقابلے میں اپنا گھر دیکھتے ہیں تو گھر میں آسائش و آرام کے لئے فوم کے گدّے، صوفہ سیٹ، قالین، وی سی آر، ٹی وی سیٹ اور برتنوں کے انبار دیکھتے ہیں۔ ہمیں شرم کیوں نہیں آتی کہ ہم کس اتباع سنت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

ہمارے ہاں خدا کے فضل سے ایسے بزرگ بھی موجود ہیں جو ہمیشہ روزے رکھتے ہیں اور جن کی نماز قضا نہیں ہوتی اور وہ اتباع سنت کا بھی بہت زیادہ خیال کرتے ہیں لیکن ان میں ایسے اصحاب بہت کم ہیں جن کو اپنے گھر میں رسول اللہﷺ کے مزاج اور طبیعت کے خلاف کوئی واقعہ پیش نہ آتا ہو۔ ایسے حضرات بہت کم ہیں جن کو خلاف مزاج پر غصہ نہ آتا ہو، جو اپنےخادم پر خفا نا ہوتے ہوں ، جو کسی پسند میں خود کو اپنے بھائی پر ترجیح نہ دیتے ہوں، جو اپنی نیکو کاری پر مغرور ہو کر کسی دوسرے کو حقیر نہ سمجھتے ہوں۔

یہی وہ اعمال و افعال ہیں جن کو دیکھ کر ہماری نسل مذہب سے بیزار ہو گئی ہے۔ مصلحین قوم نے باطنی محاسن پیدا کرنے پر زور دینے کی بجائے رسمی باتوں پر زور دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارے بزرگوں میں ظاہرداری زیادہ اور حقیقی نیکیاں کم تھیں مگر اب ہم سے وہ حقیقی نیکیاں بھی دور  ہو رہی ہیں۔ ہم بزرگ جو کچھ کہتے ہیں، ہمارا عمل اس کے مطابق نہیں ہوتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسل ٹی وی نہ دیکھے، گانے نہ سنے اور اپنی نسل سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل رسول اللہﷺ کی محبت میں سنت کی پیروی کرے مگر ہماری ظاہری و باطنی زندگی اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل مذہب سے دور ہو رہی ہے۔ہم بوڑھوں اور بزرگوں پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو اپنے مذہب پر قربان کر دیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو مسلمانوں کا لُٹا پٹا یہ کارواں معدوم ہو جائے گا۔

آیئے دعا کریں! اے نفس، خواب غفلت سے بیدا ر ہو، نشہ و نخوت سے ہوش میں آ، حق ناشناسی کو چھوڑ، حق شناس بن جا۔ تو اس بات کو کیوں یاد نہیں رکھتا کہ بہت جلد تجھے ایک بہت بڑے حاکم کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں تیرے اندر موجود کتاب تجھے بتائے گی کہ تو نے زندگی بھر کیا کچھ کیا ہے۔ یہ وہی کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب المرقوم کہا ہے اور اس کتاب میں علیین اور سجین زندگی بھر کے ایک ایک کام‘ ایک ایک خیال‘ ایک ایک منٹ کا ریکارڈ ہے۔

اے نفس، اس بڑے حاکم کے سامنے جب تو پیش ہو گا، تیرے اعضا تیرے خلاف گواہی دیں گے۔ اس دنیا میں ظاہرا عمل کے پردوں میں تو اپنی بدباطنی کو کتنا ہی چھپا لے لیکن اس بڑے حاکم کے سامنے تیرا ہر مخفی ارادہ اور ہر پوشیدہ عمل ظاہر ہو جائے گا۔ ریا اور تصنع کا پردہ اٹھ جائے گا جہاں اعمال و افعال خود کلام کرینگے اور جب ایسا ہو گا تو اے نفس تیرے ہر عمل کا، خواہ وہ عمل خیر ہے یا عمل شر، ٹھیک ٹھیک صلہ ملے گا۔

نفس پرستو! میرے دوستو! اللہ بڑا رحیم ہے، بڑا کریم ہے، معاف کرنے والا والا ہے مگر دانستہ غلطیاں ناقابل معافی جرم ہیں۔ اتباع سنت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگو محض دعوؤں سے کچھ نہیں بنتا۔ اگر اخلاق نبویﷺ اختیار کرنے میں ظاہری پابندی تو شدّ و مد سے کی جائے لیکن صداقت اور خلوص نہ ہو یا صرف حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی مجموعی زندگی میں سے چند اعمال کو اختیار کر کے اتباع سنت کا دعویٰ کرنے والوں کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔

 

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔