Topics

قبرستان



تاجدار دو عالم نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ قبر کے پاس بیٹھ کر فرمایا۔ قبر روزانہ انتہائی بھیانک آوازمیں پکارتی ہے، اے آدم کی اولاد! کیا تو مجھے بھول گیا؟ میں تنہائی کا گھر ہوں، میں اجنبیت اور وحشت کا مقام ہوں، میں کیڑے مکوڑوں کا مکان ہوں، تنگی اور مصیبت کی جگہ ہوں۔ ان خوش نصیبوں کے علاوہ جن کے لئے خدا مجھ کو کشادہ اور وسیع کر دے، میں سارے انسانوں کے لئے ایس
ی ہی تکلیف دہ ہوں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’قبر یا تو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغیچہ۔‘‘

ایک بار حضرت علیؓ قبرستان میں تشریف لے گئے۔ ان کے ساتھ حضرت کمیلؓ بھی تھے۔ قبرستان پہنچ کر آپؓ نے ایک نظر قبروں پر ڈالی اور پھر قبر والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ ’’اے قبر میں بسنے والو! اے کھنڈروں میں رہنے والو! اے وحشت اور تنہائی میں رہنے والو! کہو تمہاری کیا خبر ہے؟ہمارا حال تو یہ ہے کہ مال تقسیم کر لئے گئے، اولادیں یتیم ہو گئیں، بیویوں نے دوسرے خاوند کر لئے۔ یہ تو ہمارا حال ہے۔ اب تم بھی تو اپنی کچھ خبر سناؤ۔‘‘ پھر آپ کچھ دیر خاموش رہے، اس کے بعد حضرت کمیلؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا۔

’’کمیل! اگر ان قبروں کے باشندوں کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ کہتے کہ بہترین توشہ پرہیز گاری ہے۔‘‘

یہ کہہ کر حضرت علیؓ رونے لگے اور دیر تک روتے رہے۔ پھر بولے۔ ’’کمیل! قبر عمل کا صندوق ہے اور موت ہے اور موت کے وقت ہی یہ بات معلوم ہو جاتی ہے۔‘‘

موجودہ زمانہ میں یہ بات عام ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ قبرستان میں سگریٹیں پیتے ہیں۔ لاپروا لوگوں کی طرح ہنسی مذاق کرتے ہیں، دنیا اور لوازمات دنیا کی باتیں کرتے ہیں جبکہ قبر آخرت کا دروازہ ہے۔ اس دروازہ کو دیکھ کر آخرت کی فکر کیجئے۔



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔