Topics

فرشتوں کی جماعت


خداوند قدوس و مکرم نے جب حضرت آدمؑ کو پیدا کیا تو ان کو فرشتوں کی ایک جماعت کے پاس جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جاؤ اور ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو۔ اور وہ سلام کے جواب میں جو دعا دیں اس کو غور سے سن کر حافظہ میں محفوظ کر لو، اس لئے کہ یہی تمہارے لئے اور تمہاری اولاد کے لئے دعا ہو گی۔ چنانچہ حضرت آدمؑ فرشتوں کے پاس پہنچے اور کہا۔ السَّلامُ عَلَيْكُم

فرشتوں نے جواب میں کہا۔ السَّلامُ عَلَيْكُم ورَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُهُ یعنی فرشتوں نے و رحمتہ اللہ کا اضافہ کر کے حضرت آدمؑ کے سلام کو جواب دیا۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ فرشتے جب مومنوں کی روح نکلاتے ہیں تو سلام علیک کہتے ہیں۔

’’ایسی ہی جزا دیتا ہے خدا متقی لوگوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں ہیں۔ جب فرشتے روح قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سَلَامٌ عَلَيْكُمُ جاؤ، جنت میں داخل ہو جاؤ اپنے اعمال کے صلے میں‘‘ (النحل ۳۱۔۳۲)

جنت کے دروازے پر جب یہ متقی لوگ پہنچیں گے تو جنت کے ذمے دار بھی ان ہی الفاظ کے ساتھ ان کا شاندار استقبال کریں گے۔
’’اور جو لوگ پاکیزگی اور فرماں برداری کی زندگی گزارتے رہے، ان کے جتھے جنت کی طرف روانہ کر دیئے جائیں گے اور جب وہ وہاں پہنچیں گے تو اس کے دروازے پہلے سے کھلے ہوئے ہونگے۔ جنت کے کارندے ان سے کہیں گے سلام علیکم بہت ہی اچھی زندگی گزاری، داخل ہو جاؤ اس جنت میں ہمیشہ کے لئے۔‘‘ (الزمر ۷۳)

’’اور فرشتے ہر ہر دروازے سے ان کے خیر مقدم کے لئے آئینگے اور ان سے کہیں گے سلام علیکم یہ صلہ تمہارے صبر و ثبات کی روش کا ہے، پس کیا خوب ہے آخر کا گھر اور اہل جنت آپس میں خود بھی ایک دوسرے کا استقبال ان ہی کلمات کے ساتھ کرینگے۔‘‘
’’وہاں ان کی زبان پر یہ صدا ہو گی کہ اے خدا تو پاک و برتر ہے، ان کی باہمی دعا سلام ہو گی۔‘‘

دنیا کا ہر آدم زاد آپ کا بھائی ہے۔ میں آپ کا بھائی ہوں، آپ میرے بھائی ہیں، وہ میری بہن ہے، میں اس کا بھائی ہوں۔ ان سب بہن بھائیوں میں من حیث القوم پہلے قرابت داروں کا حق زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے اوپر نوع انسانی کے حقوق عائد نہیں ہوتے۔ کنبہ، برادری، ملک و قوم اپنی جگہ ہر آدم زاد کا دوسرے آدم زاد پر حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ ایک باپ آدم اور ایک ماں حوا کے رشتے سے ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دعوت حق دیں۔ دعوت حق قبول کرنے والا کسی علاقے کا ہو، کسی رنگ اور نسل کا ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، آپ کا اس سے تعارف ہو یا نہ ہو آپ اس کے ساتھ خلوص اور محبت کا اظہار کر کے سلام میں پہل کیجئے۔ آپ اپنے گھروں میں جب داخل ہوں تو گھر والوں کو بھی سلام کریں۔

جب دو افراد آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ گفتگو کرنے سے پہلے اگر اس بارے میں سبقت کی جائے کہ مخاطب کے سامنے ایسے الفاظ دہرائے جائیں کہ جن لفظوں سے اسے خوشی ہو اور ان کے ذہن کے اندر بند سلامتی کے دروازے کھل جائیں تو اس شخص کے اوپر ایک پر سکون کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ بات چیت کے وقت نرم خو اور خوش دل ہو جاتا ہے۔

نبئ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نوع انسانی کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب بھی کوئی ایک دوسرے سے میل ملاقات کرے تو دونوں مسرت و محبت کے جذبات کا مظاہرہ کریں اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر دو ایک دوسرے کے لئے سلامتی، عافیت اور نیک خواہشات کا اظہار کریں۔

ایک بندہ کہے السلام علیکم تو دوسرا جواب دے وعلیکم السلام۔

اللہ تعالیٰ کے حضور بھائیوں کے لئے یہ دعا باہمی الفت و محبت کو استوار کرتی ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے:
’’تم لوگ جنگ میں نہیں جا سکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔ آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔‘‘

آپ جب اپنے بھائی ، اپنے عزیز، اپنے دوست سے ملاقات کے وقت السلام علیکم کہتے ہیں تو اس کے معانی یہ ہوتے ہیں کہ آپ نے اپنے بھائی کے لئے دل کی گہرائی سے دعا کی ہے کہ اے اللہ! اس کے جان و مال کو سلامت رکھ، اس کے گھر بار کی حفاظت فرما، میرے بھائی کے اہل و عیال اورمتعلقین کی سلامتی کے ساتھ حفاظت فرما، اس کی دنیا بھی اچھی ہو اور دین بھی روشن اور تابناک ہو۔ اے اللہ! میرے بھائی، میرے عزیز، میرے دوست اور میرے ہم جنس کو ان نوازشات سے نواز دے جو میرے علم میں ہیں اور ان انعامات سے مستفیض فرما جو میرے علم میں نہیں ہیں۔

جب ایک بھائی دوسرے بھائی کو سلام کرتا ہے تو دراصل وہ کہنا یہ چاہتا ہے ۔ ’’اے میرے بھائی! میرے دل میں تمہارے لئے خیر خواہی، محبت و خلوص، سلامتی اور عافیت کے انتہائی گہرے جذبات موجزن ہیں۔ تم بھی میری طرف سے اندیشہ نہ کرنا، انشاء اللہ میرے طرز عمل سے تمہیں بھی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ السلام علیکم کے معانی اور مفہوم کو اگر شعوری حواس کے ساتھ سوچ سمجھ کر زبان سے ادا کیا جائے تو مخاطب کے اندر یگانگت، قلبی تعلق اور وفاداری کے جذبات پیدا ہونگے۔ باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔ السلام خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو خدا نے زمین پر نازل فرمایا ہے۔ پس السلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔‘‘



Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔