Topics

سونے کا پہاڑ


حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے جو صفات حمیدہ کے بہترین مظہر اور تکمیل انسانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے۔ کبھی دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں فرمایا۔ ہمیشہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ فرمایا۔ کوئی ضرورت مند آپﷺ کے دربار سے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا۔ اگر آپﷺ کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا تو آپﷺ اپنی ضرورت کی اشیا گروی رکھوا کر سائل کی مدد فرماتے۔ تمام عمر یتیموں، بیواؤں اور حاجت مندوں کی سرپرستی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا شیوہ رہی۔ حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد جب آپﷺ ان کی دولت کے مالک بنے تو کچھ ہی دنوں میں سارا مال و متاع غریبوں میں تقسیم فرما دیا۔ چنانچہ جب آپﷺ کے اوپر پہلی وحی نازل ہوئی اور بہ تقاضائے بشریت خوف کے آثار ظاہر ہوئے تو حضرت خدیجہؓ نے ان الفاظ میں تسلی دی:

’’آپ پریشان نہ ہوں، خدا آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا، آپ یتیموں کے والی ہیں اور بیواؤں کی سرپرستی فرماتے ہیں۔‘‘

ہادئ برحق صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے پاس مال و زر جمع نہ ہونے کا اتنا اہتمام فرمایا کہ صبح کا درہم شام تک کبھی اپنے پاس نہیں رکھا۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ کو نصیحت کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:

’’اے ابو ذر! مجھے یہ پسند نہیں کہ میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرے دن تک اس میں سے ایک اشرفی بھی میرے پاس باقی رہ جائے مگر یہ کہ کسی قرض کے ادا کرنے کو رکھ چھوڑوں۔ میں کہوں گا کہ اس کو خدا کے بندوں میں ایسے  ایسےداہنے،بائیں اور پیچھے بانٹ دو۔‘‘

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی۔ الْـهَـاكُمُ التَّكَاثُرُ ، پھر فرمایا، آدم کے بیٹے کا یہ حال ہے کہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ اور تیرا مال تو وہی ہے جو تو نے صدقہ کیا اور آگے بھیج دیا۔ کھالیا تو اس کو فنا کر چکا اور پہن لیا تو اس کو پرانا کر چکا۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:

’’اے آدم کے بیٹے! تیرا دینا تیرے لئے بہتر اور تیرا رکھ چھوڑنا تیرے لئے برا ہے۔‘‘

حضرت ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ’’جس کے پاس سواری کے لئے زائد اونٹ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس سواری نہیں، جس کے پاس زائد زاد راہ ہو وہ اسے دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔‘‘ حضرت ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اسی طرح مختلف اموال کا ذکر فرماتے رہے حتیٰ کہ ہم نے محسوس کر لیا کہ ضرورت سے زیادہ مال رکھنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں۔

نبوت کی اس تعلیم نے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی جس کا ہر فرد دوسرے کا مددگار اور سرپرست تھا اور جس میں لوگ اپنی کمائی کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بے چین رہتے تھے۔ وہ ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ جس سے ان کی کمائی مستحقین تک پہنچ جائے۔

Topics


Tajaliyat

خواجہ شمس الدین عظیمی

دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔

انتساب

ان سائنسدانوں کے نام

جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں

موجودہ سائنس کا آخری عروج

دُنیا کی تباھی

دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات

اللہ کی تجلی کا

عرفان حاصل کر لیں گے۔