Topics
انسان کو اس دنیا کی زندگی میں طرح طرح کے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی اس
پر رنج و غم اور تکالیف کا دور آتا ہے اور کبھی خوشی اور کامیابی اس کے قدم چومتی
ہے۔ کبھی جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں اور کبھی مالی منفعت حاصل ہوتی ہے۔
انسان کے جذبات اور اس کی سوچ میں حالات کے ان تلاطم سے تبدیلیاں پیدا ہوتی رہتی
ہیں۔ جب اس پر مصائب کا زمانہ آتا ہے تو وہ بشری تقاضے کے تحت رنج و غم اور تفکرات
سے نیم مردہ ہو کر رہ جاتا ہے اور ناامیدی اور احساس کمتری اس کے ذہن پر قبضہ جما
لیتی ہے۔ جذبات کی رو میں آ کر وہ قانون قدرت کو بھی برا بھلا کہہ بیٹھتا ہے حالانکہ
وہ قانون قدرت سے واقفیت ہی نہیں رکھتا۔
اس
کے برعکس جب اس پر خوشحالی کے دروازے کھلتے ہیں اور خوشیاں اس کے حصے میں آتی ہیں
تو وہ ان حالات کو اپنی قوت بازو پر محمول کرتا ہے اور دولت کے نشے میں چور ہو کر
حد سے تجاوز کر جاتا ہے۔
مومن
کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر حالت کو چاہے وہ خوشی کی ہو، غم کی ہو یا مالی
فراوانی کی ہو ایک نظر سے دیکھتا ہے، ہر مصیبت میں ثابت قدم رہتا ہے۔ کیسے ہی
حالات کیوں نہ ہوں وہ کبھی ناامیدی کی دلدل میں نہیں پھنستا۔ اللہ کا شکر ادا کرنا
اس کا شعار ہوتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ جس طرح خوشی کا زمانہ آتا ہے اسی طرح مصائب
کا دور آنا بھی ایک رد عمل ہے۔ وہ آزمائش کے زمانے میں جدوجہد اور عمل کے راستے کو
ترک نہیں کرتا کیونکہ اس کی پوری زندگی ایک پیہم جدوجہد ہوتی ہے۔
تمام
انبیائے کرام کا ذہن یہی تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ پر بھروسا کرتے تھے اور ہر
آزمائش میں اللہ کے شکر کے ساتھ ثابت قدم رہتے تھے۔ شکایت کا کوئی کلمہ ان کے لبوں
سے ادا نہیں ہوتا تھا۔ قرآن پاک نے حضرت ایوبؑ کو اللہ پر توکل اور مشکلات میں
ثابت قدمی کا سمبل (SYMBOL) بنا کر پیش کیا ہے۔ اس کے برخلاف حضرت سلیمانؑ کو مالی فراوانی
اور خوش حالی میں شکر، انکساری، فروتنی اور سخاوت کا مظہر بنا کر پیش کیا ہے۔
اللہ
کے یہی مقدس بندے ہیں جن کے متعلق ارشاد خداوندی ہے:
’’اور
ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، بھوک، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں
مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کرینگے ان لوگوں کو خوش خبری دے دیجئے جو مصیبت پڑنے پر
کہتے ہیں‘ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں خدا ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ان پر ان کے
رب کی طرف سے بڑی عنایت ہونگی اور اس کی رحمت ہو گی اور ایسے ہی لوگ راہ ہدایت پر
ہیں۔‘‘
ایک
جگہ ارشاد ہے:
’’جو
مصائب بھی روئے زمین پر آتے ہیں اور جو آفتیں بھی تم پر آتی ہیں وہ سب اس سے پہلے
کہ ہم انہیں وجود میں لائیں ایک کتاب میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ
بات خدا کے لئے آسان ہے تا کہ تم اپنی ناکامی پر غم نہ کرتے رہو۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔