Topics
اللہ نے ہر جان دار کو سمندر سے پیدا کیا۔ ان میں سے بعض پیٹ کے بل اوربعض چار
ٹانگوں پر چلتے ہیں۔ اللہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ وہ ہر قسم کے تنوع پر قادر ہے۔
(نور۴۵)
اللہ
نے زمین کے اوپر طرح طرح کے حیوانات پیدا کئے ہیں۔ ان کا شمار کیا تو الگ الگ
لاکھوں نوعیں ہیں اور ہر نوع کے افراد کروڑوں اور اربوں سے زیادہ ہیں۔ ہر نوع کا
الگ الگ رنگ اور الگ الگ ڈھنگ ہے۔ ہر نوع کے اربوں کھربوں افراد کی شکل، ہیئت
دوسری نوع کے افراد سے مختلف ہے۔
یہی
حال نباتات اور جمادات کا ہے۔ پھولوں اور سبزیوں پر چھوٹی چھوٹی مکھیاں اس قدر
باریک ہوتی ہیں کہ اگر انہیں پکڑ کر دیکھنا چاہیں تو ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ مگر
حقیقت کی بات یہ ہے کہ ان میں گردے ، ہڈیاں، پھیپھڑے، معدہ، انتڑیاں، دماغ،
آنکھیں، پر، ٹانگیں اور سب کچھ اپنی جگہ موجود ہیں۔
حالات
کے مطابق مختلف حیوانات کی حرکات و سکنات بھی مختلف ہیں۔ بعض دن کو سوتے اور رات
کو جاگتے ہیں۔ بعض رات کو سوتے اور دن کو جاگتے ہیں۔ ایسے جانور بھی ہیں جو سخت
گرمی اور سردی میں مکانوں کی چھتوں اور سوراخوں میں مہینوں چھپے رہتے ہیں۔ اور
باوجود اس کے کہ بظاہر انہیں ہوا، غذا اور روشنی میسر نہیں ہوتی، وہ زندہ رہتے
ہیں۔
قدرت
نے درختوں کی غذا کا اہتمام ہوا کے ذمے کر دیا ہے اس لئے انہیں چلنے کی ضرورت لاحق
نہیں ہوتی۔ ذرا غور کریں۔۔۔۔۔۔غذا کی تلاش اور حصول رزق میں اگر دوسرے چوپایوں کی
طرح چلنا شروع کر دیں تو زمین پر کیسی ابتری پھیل جائے گی۔ پرندوں کی طرح اگر درخت
اڑنا شروع کر دیں تو دنیا کا نظم کیا تباہ نہیں ہو جائے گا؟
موتی
سیپ کی کشتی میں ہچکولے کھاتا ہوا دریا کی سطح پر تیرتا رہتا ہے۔ سائنسدان بتاتے
ہیں کہ سیپ کے کئی منہ اور ہر منہ کے چار ہونٹ ہوتے ہیں۔پرندوں میں ایسے پرندے بھی
ہیں جن میں صرف لمس کی حس ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں حواس ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن
میں چار حواس ہیں اور صرف بصارت سے محروم ہیں۔ پانچ حواس والے جانوروں سے ہم سب
واقف ہیں۔ قدرت کی کاریگری دیکھئے کہ ہر مخلوق وہ دو حواس کی ہو، تین کی ہو، چار
حواس کی ہو یا پانچ حواس کی ہو تخلیق کے لحاظ سے مکمل ہے۔
بعض
حیوانات چلنے کی بجائے لوٹتے ہیں۔ بعض کیڑے صرف سرکتے ہیں۔ کچھ پیٹ کے بل چلتے
ہیں، بعض دوڑتے ہیں۔ پرندے دو پروں سے اڑتے ہیں۔ چار پروں والے پرندے بھی ہوتے
ہیں۔ جانوروں کے دو پیر ہوتے ہیں، چار پیر ہوتے ہیں، چھ پیر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ
اس دنیا میں ہزار پیروں والے جانور بھی موجود ہیں۔
’’کیا
یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اونٹ کی تخلیق کیسے ہوئی، آسمان کو کس طرح رفعت دی گئی،
پہاڑ کیسے نصب کئے گئے اور زمین کیونکر بچھ گئی۔ اے رسول(صلی اللہ علیہ و سلم )
اللہ کی صناعی کی یہ داستان لوگوں کو سنائیں۔‘‘ (سورۂ غاشیہ)
پہاڑوں
سے مختلف معدنی چشمے نکل کر کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ پہاڑوں کی بلندیوں پر چیڑ
اور دیودار
سے ایسے درخت اُگتے ہیں۔ کوئلہ، چاک، چونا، تانبا، سونا، لوہا اور دیگر معدنیات
پہاڑوں کی آغوش سے ہی دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ پہاڑ کروڑوں سال سمندر کے نیچے رہے اور
جوان ہونے کے بعد اپنے پہلو میں معدنیات کے خزانے لے کر اس دنیا پر ظاہر ہوئے۔
قادر
مطلق، حقیقی صناع، واجب الوجود اللہ ارشاد کرتا ہے:
’’ہم
نے ہر چیز کو پانی کی بدولت زندگی بخشی۔‘‘ (سورۂ انبیاء)
انسان
قدرت کا ایک حیرت انگیز اعجاز ہے۔ ماہرین نے یہ راز افشا کیا ہے کہ انسان کی تخلیق
میں کھربوں خلیے کام کرتے ہیں۔ پہلے یہ خلیہ ایک ہوتا ہے، پھر دو، پھر چار، پھر
آٹھ ضرب ہو کر جسم انسانی کی تشکیل کرتا ہے۔ کچھ خلیے ناک، کچھ کان، کچھ آنکھ اور
کچھ دوسرے اعضا کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ عقل محو حیرت ہے کہ ایسا
کبھی نہیں ہوتا، نہیں ہوا کہ یہ خلیے ناک کی جگہ کان اور کان کی جگہ آنکھیں بنا
دیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے ایک یکتا اور واحد آنکھ ان کی نگرانی کرتی ہے اور یہ
نگرانی ہمہ وقت محیط ہے۔
’’ارض
و سما کی ہر چیز مشیت ایزدی کے تابع ہے۔‘‘ (آل عمران)
خواجہ شمس الدین عظیمی
دنیا کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق آپ ّ کی منورزندگی کی روشنی میں اپنی زندگی بہتر بناسکتاہے ۔ قرآن نے غوروفکر اورتجسس وتحقیق کو ہر مسلمان کے لئے ضروری قراردیا ہے ۔ اس حکم کی تعمیل میں عظیمی صاحب نے قرآن کی آیات اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر غوروفکر فرمایا اورروحانی نقطہ نظر سے ان کی توجیہہ اورتفسیر بیان فرمائی ہے جو کہ "نورالہی نورنبوت" کے عنوان سے ہر ماہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی صفحات کی زینت بنتی ہے ۔ کتاب " تجلیات" اس مستقل کالم میں سے چند کالمز کا مجموعہ ہے ۔
انتساب
ان سائنسدانوں کے نام
جو پندرہویں(۱۵) صدی ہجری میں
موجودہ سائنس کا آخری عروج
دُنیا کی تباھی
دیکھ کر ایک واحد ذات خالق کائنات
اللہ کی تجلی کا
عرفان حاصل کر لیں گے۔